وفاقی حکومت کی جانب سے گندم پالیسی 2025-26 کی منظوری کے بعد پیپلزپارٹی اور کسان اتحاد کے تحفظات سامنے آ گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے نئی پالیسی میں گندم کی فی من امدادی قیمت 3500 روپے مقرر کی ہے، تاہم سندھ حکومت نے وفاق سے کم از کم امدادی قیمت 4200 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے، جبکہ کسان اتحاد پاکستان کے چیئرمین خالد حسین نے کہا ہے کہ اگر حکومت گندم کی امدادی کی قیمت 4500 روپے فی من مقرر نہیں کرتی تو کسان گندم کاشت نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے کسان اتحاد کی آئندہ سال گندم کی کاشت نہ کرنے کی دھمکی
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت منظور کی گئی پالیسی کے مطابق حکومت کسانوں کے تحفظ اور گندم کے اسٹریٹجک ذخائر کی خریداری یقینی بنائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، گندم کی فصل کسانوں کے لیے آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس لیے حکومت کسانوں کے مفاد کو یقینی بنائے گی۔
دوسری جانب سندھ کے وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے مؤقف اختیار کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث صوبے وفاق کے بغیر کسانوں کو امدادی قیمت نہیں دے سکتے۔ ہم نے صوبائی سطح پر کسانوں کے لیے 56 ارب روپے کا پیکیج دیا ہے اور فی ایکڑ 24 ہزار 700 روپے سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت سے گندم کی امدادی قیمت 3500 سے بڑھا کر 4200 روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے گندم کا بحران اور ہمارے کسان
کسان اتحاد پاکستان کے چیئرمین خالد حسین نے کہا ہے کہ اگر حکومت گندم کی امدادی کی قیمت 4500 روپے فی من مقرر نہیں کرتی تو کسان گندم کاشت نہیں کریں گے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 3500 روپے فی من کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ کسان کی لاگت سے بھی کم ہے۔ کسان کی گندم پر لاگت 4 ہزار سے 4500 روپے فی من تک ہوتی ہے۔ سیلاب نے کسانوں کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب حکومت کی جانب سے کم ریٹ کا اعلان کر کے کسانوں پر مزید بوجھ ڈالا گیا ہے۔ اگر حکومت فی من قیمت 4500 روپے مقرر نہیں کرتی تو کسان آئندہ سال کے لیے گندم کاشت نہیں کریں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت پر اختلافات وفاق میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے درمیان نئے تنازعے کو جنم دے سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی دونوں جماعتوں کے درمیان گندم خریداری، ذخیرہ اور سبسڈی پالیسی پر اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔ اگر سندھ حکومت اپنے مطالبے پر قائم رہی تو گندم کی قیمت پر صوبائی و وفاقی پالیسیوں میں تضاد بڑھ سکتا ہے، جس کے اثرات قومی سیاست پر بھی پڑ سکتے ہیں۔