بھارت میں مودی حکومت کی تیسری مدت کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ستمبر کے ایک ماہ میں مختلف ریاستوں سے 6 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جو اقلیتوں کی عدمِ تحفظ اور سماجی تقسیم کی گہری ہوتی خلیج کو ظاہر کرتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مودی حکومت کی تیسری مدت میں مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
ستمبر 2025 کے دوران مختلف ریاستوں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، گجرات، اترا کھنڈ اور بہار، سے کم از کم 6 واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے، جو اس رجحان کے پھیلاؤ اور اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے ضلع مندسور میں 16 ستمبر کو 35 سالہ مسلم شہری آصف بابو ملتانی کو مبینہ طور پر گاؤ رکھشکوں نے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ وہ راجستھان سے مویشی خرید کر واپس آ رہے تھے، تاہم پولیس کو ان کے پاس کوئی گائے نہیں ملی۔
اتر پردیش کے ضلع ہاپڑ میں 19 ستمبر کو ایک مسلم خاندان پر حملہ کیا گیا، جب کہ علی گڑھ میں ایک امامِ مسجد مصطفیٰ کو مذہبی نعرہ لگانے سے انکار پر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گجرات کے علاقے گودھرا میں ایک نوجوان ذاکر جھابھا کو مبینہ طور پر پولیس اسٹیشن کے اندر مارا پیٹا گیا، جس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
اتراکھنڈ کے ضلع اودھم سنگھ نگر میں ’آئی لو محمد‘ کے عنوان سے نکالی گئی ریلی کو پولیس نے اجازت نہ ہونے کے بہانے روک دیا، جس کے بعد متعدد شرکا کو حراست میں لے لیا گیا۔
مزید پڑھیں: مودی اور آر ایس ایس کا گٹھ جوڑ انتہا پسندی کی جڑ، ریاستی وزیر کو قتل کی دھمکیاں
اسی روز بہار کے ضلع مدھوبنی میں مذہبی جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر تنازعہ ہوا، جس میں ایک مسلمان شہری محمد ابراہیم پر حملہ کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ واقعات محض مقامی تنازعات نہیں بلکہ بھارت میں مذہبی رواداری کے لیے ایک خطرناک علامت ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور سیاسی ماحول دونوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر کثرت پسندی کے علمبردار ملک میں اقلیتوں کے خلاف اس نوعیت کے واقعات حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے ایک سخت امتحان ہیں۔