پاکستانی پختون سرکاری دستاویزات میں اپنی قوم افغان لکھتے ہیں۔ افغانستان کی ہر حکومت کی طرح طالبان حکومت کے ساتھ بھی ہمارا بریک اپ چوراہے میں ہوا ہے۔ کوچی جب تھان سے سوٹ پھاڑ کر الگ کرتا ہے تو اک آواز آتی ہے۔ طالبان کےساتھ بریک اپ پر دل پاٹنے کی آواز بھی اس سے ملتی جلتی آئی ہے۔ غصہ اگر افغان طالبان پر ہے تو انہی پر اتاریں سب افغانوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں۔
اپنی شناخت افغان لکھنے والوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ پاکستان میں رہتی ہے۔ مسئلے کو بڑھا کر کروڑوں افغانوں تک نہ پھیلائیں۔ اس کو سکیڑ کر 50 ہزار طالبان اور 10، 20 ہزار ٹی ٹی پی تک محدود کریں۔ پاکستان سے بیر رکھنے والے دو، چار فیصد افغانوں کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ سارے کل ملا کر دو، ڈھائی ملین سے زیادہ نہیں۔ ان میں بھی 98 فیصد منہ سے ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی ہے۔ ان میں سے بھی اکثر منہ سے یہ ہوائی فائرنگ ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی کرتے ہیں۔
پاکستان کو ایک لفظ میں ڈیفائن کرنا ہو تو یہ ایک سروائیر سٹیٹ ہے۔ ایسی ریاست جس نے ہر حال میں سروائیو کیا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی الگ ہوئی۔ مارشل لا سہے، جمہوریت کو سر پر لاد کر چلتا رہا۔ اک متفقہ آئین بنایا چلایا۔ جنگیں اور علیحدگی کی تحریکیں بھگتی، دہشتگردی اور مسلح تحریکوں کا سامنا کیا۔ شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی لسانی پنگے دنگے دیکھے۔
یہ وار ہارڈنڈ ملک ہے۔ دنیا میں شاید کوئی دوسری مثال نہیں۔ کسی ملک کی سیکیورٹی فورسز نے اتنی دہائیوں تک ٹھنڈی گرم لڑائیوں کا تجربہ حاصل کر رکھا ہو۔ یہاں آپ کا دل چاہے گا کہ افغانستان کی مثال دیں۔ تو افغانستان کی ریاستی ڈھانچے کا موازنہ کر لیں پاکستان سے۔ وہاں کی اکثریتی آبادی ملک سے باہر بطور مہاجر گھوم رہی ہے اور اب پکڑ پکڑ کر واپس بھی بھجوائی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت کا، رہائشی سہولیات کا، فی کس آمدنی کا، دفاعی قوت کا، ٹیکنالوجی کا، تعلیمی نظام کا، جدت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔
پاکستانیوں نے ایک بات نہیں سیکھی وہ ہے خود پر اعتماد کرنا۔ ہمیں پتہ نہیں کون سی بیماری ہے کہ عدم تحفظ کے وہم جاتے ہی نہیں۔ پاکستان شیعہ آبادی رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہ بات ہماری طاقت ہے لیکن ہمارے وہم اور سازشی تھیوریاں اس میں بھی مردانہ کمزوری تلاش کر سکتے۔ پاکستان پختونوں (افغانوں) کی سب سے بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، بلوچوں کی سب سے بڑی تعداد کا وطن پاکستان ہے۔ بلوچستان سے زیادہ بلوچ سندھ اور پنجاب میں رہتے ہیں۔ پختوںوں، بلوچوں کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ ہم اس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ ہل جل کر خود دکھا سکتے ہیں لیکن الگ نہیں ہو سکتے۔
افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی کھدائی کرنا ہماری خواہش نہیں تھی، حوالدار بشیر کا شوق تھا۔ اب اگر تزویراتی گہرائی والا وظیفہ الٹ گیا ہے اور بھوت پریت نکل کر بے قابو ہیں۔ دیسی طبعیت کا تقاضہ یہی ہے کہ پہلے دل ٹھنڈا کرنے کے واسطے حرام خور نمک حرام وغیرہ وغیرہ کہا جائے اور ٹوں ٹوں بھی کی جائے۔ ایسا کرنا قومی مفاد کا بھی تقاضہ ہے۔ ضرور کریں، کہیں لیکن انہی کو جن کے ساتھ مل کر تزویراتی گہرائی کھود کھود کر گہری کی جا رہی تھی۔ ان باتوں کا فوکس طالبان پر رکھیں افغان پر نہیں۔
طالبان میں بھی کچھ فرق کرنا ضروری ہے۔ کچھ معززین ایسے ہیں جن کو حوالدار بشیر کے ہات اور لات دونوں لگی ہیں۔ ان کی معذوری غصہ اور لاتعلقی سمجھنی چاہیے۔ دوسرے وہ ہیں جو عزت سے پاکستان رہے اور اب بھی ہمارے بارے میں کلمہ خیر کہتے اور اچھا سوچتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو پاکستان میں پڑھے، اردو سیکھی، ادب پڑھا، پاکستانی اساتذہ کی محبت کے اسیر ہیں اور خاموش ہیں۔ ان کو کسی طرح بولنے اور کردار ادا کرنے پر حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔
آپ جیسے جیسے کیٹیگری بناتے جائیں گے تو اندازہ ہو گا کہ شرپسند کم اور اہل خیر زیادہ ہیں۔ ہمیں ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی خان یا وہ سب جو ریاستی پالیسی سے ہٹ کر بولتے ہیں اور ان کی افغانستان میں سنی جاتی ہے۔ تو یہ سب ہماری طاقت ہیں کمزوری نہیں ہیں۔ ان کا کہیں بھی اثر ہے تو وہ ہم سب کا اثر ہے۔
انڈیا 5 ایمبولینس دے کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف کھڑا نہیں کر سکتا۔ ہمیں تھوڑی ہمدردی افغانوں سے بھی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی اولاد خراب نکلتی ہے ان کا ابا سوری امیر صاحب پرابلم چائلڈ نکل آئے۔ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی لگا کر بیٹھے ہیں اور جو سمجھائے اس کہتے ہیں ’نے منم‘ (نہیں مانتا)۔ افغانوں کے دل جیتنے ہیں تو خواتین کے لیے آن لائن تعلیم کا پاکستانی اسکولوں میں انتظام کرا دیں۔ جو لڑکیاں یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، ان کو فیملی سمیت لمبی مدت کے ویزے دے دیں۔ پھر آپ کو بہت سے لوگ افغانستان سے بھی مل جائیں گے جو بتائیں گے کہ صورتحال خراب کرنے والے حرام خور ہیں کون سے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔