ڈیجیٹل دنیا میں آن لائن کاروبار تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، آن لائن کاروبار کے بڑھتے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی نظر آتا ہے کہ اس شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی خوب سرگرم ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں گھر بیٹھے کاروبار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
کورونا کے دوران خواتین کو مردوں کے مقابلہ میں بے روزگاری کا سامنا زیادہ کرنا پڑا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین کو اب بھی نوکری تلاش کرنے میں زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کورونا کے دوران بے روزگاری کا نشانہ بننے کے بعد خواتین آن لائن کاروبار کی طرف زیادہ راغب ہوئی ہیں۔
8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پرپاکستان کے صدرعارف علوی نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ کورونا وبا کے دوران ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور خواتین کا پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں کردار ضروری ہے۔
اسلام آباد ویمن چیمبر آف کامرس کی سابق صدر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سابق نائب صدر نائمہ انصاری نے خواتین کے ڈیجیٹل کاروبار سے متعلق بتایا کہ خواتین کو نوکریاں ڈھونڈنے میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں جن کے باعث خواتین اب آن لائن کمانے کو زیادہ فوقیت دے رہی ہیں۔ اور خاص طور پر اپنا کاروبار چلانے کو زیادہ اہم سمجھتی ہیں۔
نائمہ انصاری کہتی ہیں ’ڈیجیٹل دنیا کے اس زمانے میں خواتین معاشی خود مختاری کو ترجیح دیتی ہیں۔ پہلے کی نسبت اب خواتین کے لیے شادی کر کے گھر بسانا ہی زندگی نہیں ہے۔ نہ صرف غیر شادی شدہ بلکہ شادی شدہ خواتین میں بھی یہ شعور پیدا ہو چکا ہے کہ بہتر زندگی کے لیے عورت کا کمائی کرنا بھی بہت ضروری ہے‘۔
انہوں نے بتایا چونکہ خواتین اب پڑھی لکھی ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال بھی جانتی ہیں، اس لیے ان کے لیے گھر سے کسی بھی طرح کے چھوٹے موٹے کاروبار کا آغاز آسان ہوچکا ہے۔ ’خاص طور پر شادی شدہ خواتین کے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے کہ وہ گھر میں بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کو آرام سے وقت دے سکتی ہیں‘۔
ایک سوال پر نائمہ انصاری نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں 25 ویمن چیمبرز موجود ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کی رجسٹرڈ کاروباری خواتین کی تعداد کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت تقریباً اسلام آباد کی 1000 خواتین ان کے پلیٹ فارم پر رجسٹر ہیں۔ اور ان ایک ہزار خواتین میں ہوم بیسڈ ورکرز کے ساتھ دیگر خواتین بھی ہیں جن کے باقاعدہ دفاترہیں۔ یہ سب خواتین آن لائن کاروبار ہی کر رہی ہیں۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق( نائمہ کے بقول ) 5 سے 7 ہزار کے درمیان ایسی خواتین ہیں جو آن لائن چھوٹے موٹے کاروبار تو کر رہی ہیں مگر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
وی نیوز نے ایسی ہی چند خواتین سے گفتگو کی جنہوں نے بہت ہی کم پیسوں سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا لیکن وہ آج اس کاروبار سے ماہانہ لاکھوں، کروڑوں روپے کما رہی ہیں۔
پولیو ورکر بنی برانڈ کی مالکن
والد کے انتقال کے بعد معاشرے کے ستم سہنے والی 25 سالہ بشریٰ اقبال نے مشکل حالات کے باعث، 10 سال کی عمر ہی سے سکول کے ساتھ ہی ساتھ ، شام میں پولیو ورکر کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی پہلی کمائی 250 روپے تھے۔ اور انہوں نے پولیو اور ڈینگی ورکر کے طور پر تقریبا 15 سال تک کام کیا۔ ’اتنا برا لگتا تھا جب لوگ حقارت اور بری نظروں سے دیکھتے تھے اس لیے ڈریس ڈیزائنر بننے کی خواہش پیدا ہوئی، ان کا کہنا ہے کہ پولیو ورکر کی کوئی عزت نہیں کرتا، اور اس نوکری کو چھوڑنے کے لیے کاروبار کا خیال آیا۔
بشریٰ نے تقریبا 3 برس قبل ہیئر سیرم سے اپنے آن لائن کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے تقریبا 15 ہزار روپوں سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا، اور ان 15 ہزار میں سے بھی 8 ہزار روپے دوستوں سے ادھار لیے تھے۔
شروع میں یہ خوف تھا کہ کہیں پیسے ضائع نہ ہو جائیں، مگر پھر یہی سوچتی تھی کہ کچھ نہ سہی مگر زندگی میں’ مزید ایک تجربہ ہو جائے گا‘ کہتی ہیں چونکہ ان کے والد کے نام پر برانڈ کا نام رکھا گیا تو یہ بھی یقین تھا کہ یہ کاروبار ڈوبنے نہیں دے گا، اور پھر انہوں نے اسی نام کےساتھ انسٹاگرام پر ایک پیج کی حیثیت سے کامیابیوں بھرے راستہ کی طرف پہلا قدم اٹھا لیا۔
پہلے آرڈر پر اتنا خوش تھی کہ اپنے احساسات بیان نہیں کرسکتی‘
چند فالوررز سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے 3 لاکھ فالورز کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ بشریٰ نے اپنے برانڈ کی ماہانہ آمدن کے بارے میں بتایا کہ ایک کروڑ روپے کی سیل بھی کی ہے اور اگر کسی مہینے کم سیل بھی ہو تو کم از کم 40لاکھ روپے تک کی ضرور ہوتی ہے۔
بشریٰ اقبال کی آواز میں ان کی زندگی میں آنے والی مشکلات کی تکلیف بھی محسوس ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ ’والد کے انتقال کے بعد کئی سال تک ان سمیت بہن بھائیوں نے نئے کپڑے نہیں بنوائے تھے۔ عید کے موقع پر اگر کوئی مدد کر دیتا تھا تو گھر میں گوشت پک جاتا تھا، ورنہ چٹنی اور پیاز کے ساتھ کھانا کھا لیتے تھے‘۔
پھر یک دم ان کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، وہ بولیں: ‘اب خود پر فخر ہوتا ہے، اللہ کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے اتنی خوشیاں دکھائی ہیں۔
کاروبار کے ذریعے سے مہنگا گھر، گاڑی بنانے والی بشریٰ اقبال کی بیوٹی پراڈکٹس پاکستانی اداکارائیں بھی کافی استعمال کرتی ہیں۔
ایک کمنٹ کی بنیاد پر بننے والا کاروبار
33 سالہ ساجدہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور ان کا آن لائن کچن ہے۔ ان کے 3 بچے ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کا سہارا بننے کے لیے کورونا کے دور میں یہ کام شروع کیا تھا۔
ساجدہ کہتی ہیں کہ کورونا کے دوران ان کے شوہر کا کاروبار تقریباً بند ہو چکا تھا۔ گھریلو اخراجات پورے کیسے کریں، یہ سمجھ سے باہر تھا۔ کہتی ہیں کہ ان کو کوکنگ کا شوق ہمیشہ سے تھا اور وہ عام طور پر بھی گھر میں مختلف قسم کے کھانے پکایا کرتی تھیں۔
’ہم سب کورونا کے دوران گھر میں قید ہو چکے تھے، کاروبار ٹھپ ہو چکے تھے اور گھر بھی چلانا تھا۔ پھرایک دن میں انسٹاگرام دیکھ رہی تھی۔ مجھے کھانے پکانے کا شوق ہے تو میں نے ایسے بہت سے پیجز فالو کر رکھے تھے جو مختلف قسم کے کھانے کی تراکیب شیئر کرتے تھے۔ میرے دماغ میں بھی اچانک ایک خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی ایسے ریسیپیز شئیر کروں اور کچھ عرصہ بعد شاید میں بھی اسی طرح کمانے لگوں۔ میں نے اسی وقت بیٹھے بیٹھے پیج بنا لیا۔ شام کو آلو قیمہ بنا رہی تھی، وہ ریسیپی بھی ریکارڈ کرلی چھوٹی سی ویڈیو کی صورت میں۔
انہوں نے بتایا ’یوں انسٹاگرام پیج پر تقریباً 3 سے 4 ہفتے تک وہ کھانے کی ترکیب کی مختصر ویڈیوز شیئر کرتی تھیں، اور ان وڈیوز کے ویوز میں اضافہ ہو رہا تھا جن سے ان کاحوصلہ مزید بڑھ جاتا تھا۔
ساجدہ کہتی ہیں: انسٹاگرام پیج چلانے کی کچھ ٹپس انہوں نے یوٹیوب کی ویڈیوز سے لے رکھی تھیں: ’یوں کھانے کی ترکیب شیئر کرتے، انہیں تقریباً 2 مہینے ہو چکے تھے، لوگ پسند کرتے تھے اور اپنی رائے دے کر سراہتے بھی تھے‘۔
’ایک دن میں کمنٹس پڑھ رہی تھی جس میں تعریف کے ساتھ لوگ یہ بھی لکھتے کہ ان کا کھانے کو دل چاہ رہا ہے، اور اسی دن میری نظر سے ایک کمنٹ یہ بھی گزرا کہ کاش! میں بیچتی ہوتی تو وہ ضرور مجھ سے منگوا کر کھاتیں۔
یہی وہ کمنٹ تھا جس نے کئی روز تک میرے دل سے نہ نکلنے کی قسم کھا رکھی تھی، مگر ایسا لگتا تھا کہ بس! یہ ایک خیالی دنیا میں ہی ممکن ہو سکتا ہے ‘
ساجدہ نے اپنی مشکل دور کرنے کے لیے جب اپنے شوہر سے پوچھا تو ان کا بھی یہی ردعمل تھا کہ ایک کمنٹ پر اتنا مت سوچیں، کیوں کہ کسی کاروبار کو چلانا آسان نہیں ہوتا۔
چند دن بعد میں نے اس خیال کو ذہن سے نکال دیا مگر یہ خیال واپس پھر ذہن میں آ کودتا۔ شوہر تو کورونا کے باعث’ رسک لینے سے منع کر رہے تھے، مگر میں سوچتی تھی کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘
ساجدہ نے ایک دن ایسے ہی انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعے اپنے فالورز سے پوچھا کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ کون سی ڈش کھانا پسند کریں گے؟ جس پر انہیں کافی زیادہ لوگوں نے اپنی رائے سے آگاہ کیا۔
’میں نے جب پاستہ بنانے کی ترکیب اپنے پیج پر ویڈیو کی صورت میں ڈالی، تب بھی لوگوں نے بہت پسند کی تھی، میں نے ان تمام میسجز کے بعد ایک اور اسٹوری لگائی کہ اگر کوئی آرڈر بک کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے اور ساتھ میں قیمت لکھ دی جس پر تقریباً 8 لوگوں نے اپنا آرڈر کنفرم کیا‘۔
میری زندگی کا وہ دن تھا جب مجھے خود پر سب سے زیادہ اعتماد ہوا تھا۔ میں خوشی سے پاگل ہو رہی تھی’۔’
یہ ساجدہ کی زندگی میں رنگینیوں کے آنے کا پہلا دن تھا۔ جب اگلی صبح بیدار ہوئیں تو انہوں نے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ہی ساتھ اپنا آرڈر بروقت تیار کر لیا۔ کہتی ہیں:’ یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ بھجواؤں گی کیسے؟ ‘ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا’ جب میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ یہ سب آرڈر ڈیلیور کر دیں تو انہیں تب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: یہ نہ ہو کہ میں جاؤں اور وہ آرڈر لینے سے انکار کر دیں۔ بہرحال بڑی مشکل سے انہیں سمجھانے کے بعد بھیجا‘۔
شوہر سے زیادہ کما لیتی ہوں
ان کی آنکھیں نم تھیں تاہم وہ خود خوشی اور فخر سے چہک رہی تھیں جب انہوں نے بتایا کہ ان کی تعلیم صرف ایف اے ہے، نوکری نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے ہر خوشی کا انحصار شوہر پر تھا، جس کے باعث بہت سی خواہشات دل میں ہی دفن کر دیتی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ہمیشہ سے زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی تھیں، پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا مگر ان کی شادی بہت جلدی ہوگئی تھی جس کے باعث وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں۔
ان کے چہرے کے تاثرات ہر لفظ کے ساتھ بدل رہے تھے۔
’ زندگی میں دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں مگر شاید ہم میں صبر نہیں ہوتا۔ بہت خوشی محسوس کرتی ہوں جب اتنی پڑھی لکھی نہ ہو کر بھی کسی کو بتاتی ہوں کہ اپنا کاروبار کرتی ہوں اور شوہر سےزیادہ کماتی ہوں، اب اپنی اور اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہوں’
فریحہ آن لائن ہاتھ کی کڑھائی والے کپڑے بیچتی ہیں
فریحہ نے بی ایس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، اور وہ کہتی ہیں کہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی نوکری نہیں ملی۔ انہوں نے ایک جگہ بغیر معاوضہ کے 5 ماہ تک انٹرن شپ بھی کی مگر نوکری نہیں ہو سکی۔
ایک سال سے زائد کا عرصہ انہوں نے نوکری کی تلاش میں ہی گزار دیا تھا، جس کے بعد آن لائن کاروبار کا سوچا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے بہت سے رشتہ دار سندھ کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں اور ان کی خالہ بہت اچھی دھاگے کی کڑھائی کرتی ہیں۔
’میں اکثر دیکھتی تھی کہ لوگ روایتی دھاگے کی کڑھائی کو بہت پسند کرتے ہیں، اور میں ایسے بہت سارے فیس بک گروپس میں تھی جہاں خواتین مختلف چیزیں بیچتی تھیں، اور روایتی کڑھائی والے کرتے یا سوٹوں کی مانگ بہت زیادہ تھی۔ بس وہیں سے خیال آیا، اور میں نے اپنی امی سے ضد کر کے 3 سوٹ ایک ساتھ لیے، انہیں بتائے بغیر کہ میں کیا کرنے کا سوچ رہی ہوں اور وہ تینوں سوٹ میں نے اپنی خالہ کو بھجوا دیے۔ امی حیران تھی کہ میں سب سوٹوں پر کڑھائی کیوں کروانا چاہتی ہوں‘۔
پچھلے سال بڑی عید سے چند دن قبل فریحہ کی خالہ نے تینوں سوٹ تیار کر کے بھیج دیے تھے۔ فریحہ کو یقین تھا کہ دھاگوں سے بھرے وہ رنگ برنگے پھول ان کی زندگی کو مہکا دیں گے، کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی امی سے چھپاتے ہوئے ان سوٹوں کی تصویریں بنا کر اسی فیس بک گروپ میں بھیجے جہاں خواتین مختلف اشیاء بیچا کرتی تھیں۔
‘میں نے وہ تصویریں تقریباً رات کے گیارہ بجے گروپ میں پوسٹ کی تھیں، لوگوں کے لائیکس تو تھے مگر کسی نے خریدنے کے حوالے سے کوئی کمنٹ نہیں کیا، اور اس رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی، اور پھر میری آنکھ کب لگی پتہ نہیں چلا۔ چونکہ بہت لیٹ سوئی تھی جب اٹھی تو اس وقت 12 بج رہے تھے، اور بدقسمتی سے بجلی بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے نیٹ نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان سے انتظار بالکل بھی نہیں کیا جا رہا تھا کہ کب بجلی آئے اور لوگوں کا فیڈبیک دیکھ سکیں گی۔
‘ جب ایک گھنٹے بعد بجلی آئی تو 12 خواتین نے مجھے میسج کیے ہوئے تھے جو ان سوٹوں کو خریدنے کی خواہش مند تھیں، اور وہ سب اسی قیمت پر لینے کو تیار بھی ہو گئیں، جو میں نے وہاں لکھی ہوئی تھی۔
مجھے ذرا بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا ایک چھوٹا سا فیصلہ میری زندگی میں اتنی بڑی خوشی لے آئے گا۔ اس کے بعد میں نے اپنی امی کو بتایا، اور انہیں بھی تب یقین آیا جب وہ سوٹ گھر سے چلے گئے اور میرے ہاتھ میں رقم آگئی۔
فریحہ کہتی ہیں انہوں نے نوکری بہت تلاش کی۔ وہ بہت عرصہ اسی لیے بہت ڈپریشن میں بھی رہی تھیں مگر کاروبار شروع کرنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ نوکری مل بھی جاتی تو وہ اتنا نہ کما سکتیں۔
پہلی کمائی کے متعلق پوچھے گئے سوال پر فریحہ نے بتایا کہ انہیں پہلے 3 سوٹوں سے 6 ہزار کا منافع ملا تھا، ‘اور وہ 6 ہزار ان کی زندگی میں 6 لاکھ کے برابر تھے۔
کہتی ہیں: زندگی میں پڑھائی کے ساتھ ہنر سیکھنا بھی بہت ضروری ہے، اور وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ملنے والے ان تمام پھولوں میں رنگ بھریں، جن پھولوں نے ان کی زندگی میں امید کی کرن پیدا کی تھی۔
فریحہ اب خود کڑھائی کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے آن لائن کاروبار کے لیے 3 اور لڑکیاں بھی رکھی ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنے آرڈرز بروقت مکمل کر کے ڈیلیور کرتی ہیں۔
ایک سوال پر فریحہ نے بتایا کہ وہ گھر میں بڑی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ سے بیٹوں کی طرح اپنے والد کا سہارا بننا چاہتی تھیں، اور اسی لیے ہر وقت نوکری کی تلاش میں رہتی تھیں۔
‘ہر کام میں محنت درکار ہوتی ہے، خاندان اور رشتہ دار جو کہتے تھے کہ پڑھ لکھ کر نوکری نہیں کر سکی، آج مجھ پر بہت رشک کرتے ہیں کہ کاش! وہ بھی میری طرح کامیاب ہوسکیں‘۔
فریحہ کا کہنا ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اگر آپ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہوں’۔
اسلام آباد ویمن چیمبر آف کامرس کی سابق صدر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کی سابق نائب صدر نائمہ انصاری کہتی ہیں’ گورنمنٹ کو کاروباری خواتین کی حوصلہ افزائی اور سپورٹ کے لیے مزید ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی، جن کے باعث خواتین کو کاروبار کے لیے قرضے مل سکیں اور ان کے باقی مسائل حل ہوسکیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں ہے، جب پاکستانی معیشت کا انحصار خواتین اور مردوں، دونوں پر برابر ہو گا۔