سپریم کورٹ نے 22 مئی سے شروع ہونے والے عدالتی ہفتے کا ججز روسٹر جاری کر دیا جس کے مطابق سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ہفتے بھی چیمبر ورک کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مسلسل 6 ہفتوں سے کسی بھی بینچ کا حصہ نہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق بینچوں کی تشکیل سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی کی ذمے داری ہے جس میں سینیارٹی کے حساب سے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود خان بھی شامل ہیں لیکن 13 اپریل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے اس ایکٹ آف پارلیمنٹ پر عملدرآمد روک دیا تھا اور اسی لیے سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی جاری و ساری ہے۔ سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے 7 بینچز مقدمات کی سماعت کریں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سنہ 2019 میں صدارتی ریفرنس دائر ہوا تو سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن نے بطور فریق ایک درخواست دائر کرکے ریفرنس کی مخالفت کی تھی۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی سینیئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے کی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے 6 ہفتوں سے چیمبر ورک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد روک دیا تھا اس لیے موجودہ قانون کے حساب سے چیف جسٹس صاحب کسی جج کو بینچ اور کسی جج کو چیمبر ورک کی ذمے داریاں سونپ سکتے ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کیوریٹو ریویو جو سابق حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم نے دائر کیا تھا اس پر فیصلہ محفوظ ہے۔ اور یہ ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی مقدمات سننے کے بجائے چیمبر ورک تک محدود ہیں۔ اگرچہ موجودہ وفاقی حکومت نے اس سال 30 مارچ کو ایک درخواست کے ذریعے کیوریٹو ریویو واپس لے لیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 10 اپریل کو اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ کے باقی روسٹر کے مطابق بینچ نمبر ایک چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا۔ چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ پنجاب میں الیکشن التوا کے مقدمے کے حوالے سے بالکل مختلف نظر آئے جہاں جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی فیصلے میں پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے جاری حکمنامے کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے معاملے میں چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ ایک ہی بینچ کا حصہ تھے اور احاطہ عدالت سے عمران خان کی گرفتاری پر دونوں معزز جج صاحبان کا نقطہ نظر ایک ہی جیسا تھا۔ دونوں جج صاحبان احاطہ عدالت سے عمران خان کی گرفتاری اور عدالتی تقدس کے مجروح ہونے پر کافی برہم نظر آئے۔
بینچ نمبر 2 میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں جبکہ بینچ نمبر 3 جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل ہوگا۔ بینچ نمبر 4 میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہوں گے، بینچ نمبر 5 جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل ہوگا، بینچ نمبر 6 میں یحیٰی آفریدی اور جسٹس مظاہر نقوی شامل ہوں گے اور بینچ نمبر 7 میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللّٰہ پر مشتمل ہوگا۔ اس کے علاوہ دن ساڑھے 11 بجے کے بعد بینچ نمبر 2 میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوں گے۔