پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی

منگل 28 اکتوبر 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

استنبول میں پاک افغان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ استنبول میں مذاکرات دوحہ مذاکرات کا تسلسل ہیں جو 18 اور 19 اکتوبر کو ہوئے تھے۔ دوحہ میں فوری جنگ بندی پرر اتفاق ہوا تھا۔ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے مکینزم کی تجویز دی گئی تھی ، سرحد پر امن اور استحکام کو دیرپا بنانے کے لیے استنبول میں 25 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ ترکی اور قطر  پاک افغان مذاکرات میں بطور ثالث شریک ہیں۔

دوحہ میں افغان وفد کی سربراہی وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد نے کی تھی ۔ استنبول کے لیے  طالبان وفد کی قیادت ڈپٹی انٹیریئر منسٹر رحمت اللہ نجیب کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ وفد میں سہیل شاہین، انس حقانی، نور احمد نور، نور رحمان نصرت اور عبدالقہار بلخی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

ڈپٹی وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب لوگر اور غزنی کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق غزنی لویا پکتیا سے ہے۔ ان کے وزیرستان کے عسکری گروپوں سے تعلقات رہے ہیں۔  سہیل شاہین کا تعلق بھی پکتیا سے ہے یہ اس وقت قطر کے لیے افغان طالبان کے نمائندے ہیں۔ یہ  دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

نور احمد نور کا تعلق قندھار  سے ہے، یہ  امیر خان متقی کے قریبی عزیز ہیں اور وزارت خارجہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ نور رحمان نصرت طالبان کی وزارت دفاع میں ہیڈ آف آپریشن رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کے ساتھ دہشت گردی سیکیورٹی اور باڈر کے معاملات پر مذاکرات میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ عبدالقہار بلخی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیں۔ یہ سابق طالبان امیر ملا اختر منصور کے داماد ہیں اور آسٹریلیوی لہجے میں اچھی انگریزی بولتے ہیں۔

استنبول کے لیے افغان طالبان کے وفد میں ہیوی ویٹ شمولیت انس حقانی کی ہے۔ یہ افغان طالبان کے وزیر داخلہ خلیفہ سراج حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں حقانی نیٹ ورک کے اہم فرد ہیں۔ دوحہ مذاکرات کی کامیابی میں اگر ملا یعقوب کا کردار تھا تو استنبول مذاکرات میں تعطل کی وجہ انس حقانی ہو سکتے ہیں۔ وجہ سادہ ہے کہ پرابلم ایریا لویا پکتیا ہے جو پکتیا، پکتیکا، خوست، لوگر اور غزنی کے کچھ علاقوں کے علاوہ پاکستان میں کرم ایجنسی، وزیرستان اور بنوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں حقانیوں کا زور ہے جو پاکستانی عسکریت پسندوں کا خاصا مرہون منت رہا ہے۔

پاکستان جس کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے وہ لویا پکتیا سے متعلق ہے۔ وزارت داخلہ حقانیوں کے پاس ہے اور آپریشنل علاقہ وہی ہے جو ان کی پاور بیس ہے، تو نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ میڈیا پر جو رپورٹس آ رہی ہیں، ان میں یہ کہا جا رہا ہے کہ استنبول میں موجود افغان وفد کابل سے ہدایت لے رہا ہے۔ کابل سے متضاد ہدایات آ رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ افغان طالبان کے اندر بھی پالیسی اختلافات موجود ہیں۔

افغان طالبان حکومت کو اب تک صرف روس نے تسلیم کیا ہے۔ ایک روسی نیوز سائٹ میں افغان انٹیلی جنس کے سیکرٹ مراسلے چھپے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبوں میں روسی انٹیلی جنس کی موجودگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ انٹیلی جنس موجودگی کیوں بڑھی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ افغانستان سے سینٹرل ایشیا اور روس کو لاحق خطرات کا بروقت اندازہ لگانے کے لیے۔

مزید پڑھیے: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ

احمد مسعود نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان کے لیڈر ہیں اور احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں ٹی ٹی پی سمیت مختلف عسکری گروپوں کی افغانستان میں موجودگی اور ان سے افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو خطرات پر بات کی ہے۔ رشید دوستم اور ان کے علاوہ سابق حکومت کے کئی اہلکار اس وقت ترکی میں مقیم ہیں جو پاک افغان مذاکرات کا ثالث ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان پر فوکس گروپ ہو، ماسکو فارمیٹ ہو، یا یو این کی سائڈ لائین پر ہونے والے ایران، پاکستان، چین اور روس کے 4 ملکی اجلاس ہوں یا خود یو این کی سلامتی کونسل کی رپورٹیں ہوں یا یورپی یونین اور امریکا ہوں۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت پر سب کو بہت سے اعتراضات ہیں۔ افغانستان میں موجود مسلح گروپ، خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی کی وجہ سے طالبان حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

افغان طالبان کو انڈیا کی حمایت ضرور حاصل ہوئی ہے۔ یہ حمایت خاصی ڈھیلی ماٹھی اور ڈھکی چھپی ہی رہے گی کہ افغان طالبان حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کرتی تو عالمی قوانین اس حکومت کی کھل کر مدد کرنے پر روک لگاتے ہیں۔ حقانیوں کو الگ سے مڈل ایسٹ میں کچھ حمایت ضرور میسر ہے جو پاکستان کے خلاف مؤثر نہ ہو۔

پاک افغان مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان لازمی طور پر اقدامات کرے گا۔ یہ اقدامات افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، تجارتی روک اور مسلح گروپوں کو افغانستان کے اندر نشانہ بنانے کی صورت سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان ایک طرح سے افغان طالبان کا وہ واحد حمایتی ہے جس کی وجہ سے افغان طالبان حکومت قائم ہے۔

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں جس طرح سیکیورٹی فورسز ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے جانوں کا نذرانہ دے رہی ہیں۔ اس پریشر کے بڑھنے کا اندازہ ریٹائر اعلی افسران کے افغان ایشو پر بولنے سے لگانا چاہیے۔ یہ پریشر زیادہ دیر نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ پاکستانی افغان طالبان کے مخالفوں کی معمولی سی حمایت بھی کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ افغان طالبان بہت سے علاقوں پر کنٹرول کھو دیں گے اور افغانستان میں ایک سے زیادہ گروپ سامنے آ سکتے ہیں جن کے پاس مختلف علاقوں کا کنٹرول ہوگا۔

ایسا ہوا تو طالبان کے پاس پہلے کی طرح پاکستان بطور محفوظ پناہ گاہ بھی میسر نہیں ہو گا۔ پاک افغان مذاکرات کی ناکامی افغان طالبان کو بطور حکومت ہی فیل کرنے طاقت رکھتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایک ملین سے زائد صارفین نے خودکشی میں دلچسپی ظاہر کی، اوپن اے آئی کا انکشاف

پشاور یونیورسٹی کے 9 مضامین میں داخلے بند، ان پروگرامز کی بندش کی وجوہات کیا ہیں؟

نوجوان اداکار نے خودکشی کرلی، آخری پوسٹ میں کیا لکھا؟

وزیراعلیٰ مریم نواز سے امریکی قونصل جنرل کی ملاقات، سرمایہ کاری و دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال

مریم نواز نے خیبر پختونخوا حکومت کے منصوبے کاپی کیے کچھ نیا نہیں، بیرسٹر ڈاکٹر سیف

ویڈیو

بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے بڑھتے مسائل، پاکستان کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے؟

گول گپے، جو فاسٹ فوڈ کے دور میں بھی مقبول ہیں

بالائی دیر کے چاپانی پھل کی خاص بات کیا ہے؟

کالم / تجزیہ

اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟

کیا افغانستان دوست ہے؟

چھوٹا پیک، بڑا پیک اور سی پیک