نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) میں بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات سامنے آنے کے بعد حکومت نے ادارے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور انضباطی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
ادارے کے اندر مبینہ طور پر سائبر کرائم مافیا سرگرم ہونے کی اطلاعات پر حکومت نے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی جی این سی سی آئی اے وقار الدین سید کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، جب کہ ان کی جگہ سید خرم علی کو نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ریلیف کے بدلے 90 لاکھ کی رشوت، ڈکی بھائی کی اہلیہ کی شکایت پر این سی سی آئی اے کے اہم افسران گرفتار
ذرائع کے مطابق این سی سی آئی اے افسران پر کرپشن، غیر قانونی مالی لین دین اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں جن میں یوٹیوبر ڈکی بھائی سے 90 لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام بھی شامل ہے۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ بعض افسران نے رشوت کے بدلے ملزمان کو ریلیف فراہم کیا اور ڈیجیٹل اثاثوں، بشمول کرپٹو کرنسی (بٹ کوائنز و دیگر) کے ذریعے رقوم کی منتقلی میں بھی ملوث پائے گئے۔
این سی سی آئی اے کا بڑا اسکینڈل تب سامنے آیا جب مشہور یوٹیوبر سعد الرحمن المعروف ڈکی بھائی کی اہلیہ عروب جتوئی کی شکایت پر رشوت لینے کے الزام میں این سی سی آئی اے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری سمیت 9 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ نامزد افسران میں انچارج زاور احمد، سب انسپکٹر علی رضا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض، یاسر رمضان، مجتبیٰ ظفر اور اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز محمد عثمان شامل ہیں۔

این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کو گزشتہ ماہ مختلف تنازعات کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہیں اسلام آباد رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے معروف یوٹیوبر رجب بٹ پر بھی غیر قانونی اور آن لائن ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کا غلط الزام عائد کیا تھا، اس کے علاوہ وکلا کے خلاف مقدمے کا اندراج اور صحافیوں کے ساتھ ہونے والے تنازع پر انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔
این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان بھی لاپتا ہیں، ان کی اہلیہ روزینہ عثمان نے درخواست دے رکھی ہے کہ 14 اکتوبر کو 4 مسلح افراد نے ان کے شوہر کو اغوا کر لیا جس پر عدالت نے پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ڈکی بھائی کے خلاف ایکشن لینے والے ایڈیشنل ڈائریکٹر این سی سی آئی اے سرفراز چوہدری تبدیل
عروب جتوئی کی ایف آئی آر کے مطابق تفتیشی افسر شعیب ریاض نے ملزم کو ریلیف دینے کے لیے 90 لاکھ روپے رشوت وصول کی، جب کہ ملزم سے 3 لاکھ 26 ہزار ڈالرز بائنینس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرائے گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق، ڈکی کی فیملی سے مجموعی طور پر 90 لاکھ روپے رشوت لی گئی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر و تفتیشی افسر شعیب ریاض نے ڈکی بھائی کو ریلیف دینے کے لیے 60 لاکھ روپے اور دوبارہ جوڈیشل کروانے کے لیے 30 لاکھ روپے وصول کیے۔ اس رقم میں سے 50 لاکھ روپے اس نے دوست فرنٹ مین گاڑیوں کے شوروم کے مالک کے پاس رکھوائے، 20 لاکھ خود رکھے، اور 5 لاکھ ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کو دیے۔ ملزمان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔
ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ این سی سی آئی اے کے اہلکار ایک منظم گینگ کی صورت میں کال سینٹرز اور آن لائن فراڈ نیٹ ورکس سے رشوت لے کر ان کے خلاف کارروائیاں روک دیتے تھے، رشوت کی رقم ہر ماہ اسلام آباد ہیڈکوارٹر میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان تک پہنچائی جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: اغوا ہونے والے این سی سی آئی اے افسر کی بیگم بھی لاپتا ہونے کا انکشاف، اسلام آباد ہائیکورٹ کا نوٹس
لاہور کی ضلعی عدالت نے گرفتار افسران کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق، یہ افسران رشوت کے ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ تھے جو آن لائن دھوکہ دہی کے معاملات میں ملوث گروہوں سے رقم وصول کرتے تھے۔
ذرائع کے مطابق این سی سی آئی اے کی ناقص کارکردگی اور شکایات کے ازالے میں تاخیر کے باعث، پنجاب حکومت نے صوبے میں علیحدہ سائبر کرائم وِنگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ونگ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر قائم کیا جا رہا ہے تاکہ صوبے میں بڑھتے سائبر جرائم کا مؤثر تدارک کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا میں 32 ارب روپے کا مبینہ مالی اسکینڈل، پی اے سی نے نوٹس لے لیا، تحقیقات کا آغاز
واضح رہے کہ ڈی جی این سی سی آئی اے رواں ماہ سینیٹ کمیٹی برائے اطلاعات کو این سی سی آئی اے کے حوالے سے بریفننگ میں بتا چکے ہیں تاہم، عملے کی کمی اور وسائل کی قلت کے باعث ادارہ ہزاروں شکایات کو بروقت نمٹا نہیں پا رہا ہے۔
بریفنگ کے مطابق اب تک ادارے کے 15 دفاتر میں 1214 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، جن میں 611 مالی فراڈ، 320 ہراسانی، 174 نفرت انگیز تقاریر اور 19 غیر قانونی سمز کے کیسز شامل ہیں۔














