طورخم سرحدی گزرگاہ کو آج سے افغان شہریوں کی واپسی کے لیے کھول دیا جائے گیا، مگر دوطرفہ تجارتی آمدورفت ابھی بند رہے گی، اسی پس منظر میں وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ سرحدی خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان کا جوابی ردِ عمل پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا اور افغانستان کے ساتھ طے شدہ میکانزم کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان حکومت میں شامل ہیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف
میڈیا رپورٹ کے مطابق ضلع خیبر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق طورخم بارڈر آج سے افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے کھول دیا جائیگا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق امیگریشن اور کسٹم عملے کو صبح سات بجے طلب کیا گیا تاکہ واپسی کے عمل کو منظم انداز میں چلایا جا سکے۔

تاہم تجارتی تبادلے کے سلسلے میں طورخم بارڈر بدستور بند رہے گا، اور تجارت کھولنے کے بارے میں فیصلہ بعد میں لیا جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر خیبر بلال شاہد راؤ نے بتایا کہ پاک افغان کشیدگی کے باعث طورخم سرحدی گزرگاہ 20 اکتوبر سے ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند تھی۔
سیاسی اور حفاظتی تناظر
نجی ٹیلویژن کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پہلی مرتبہ لکھ کر ایک میکانزم بنایا گیا ہے اور موجودہ صورتِ حال عارضی جنگ بندی میں توسیع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
انہوں نے واضح کیا کہ مزید بات چیت 6 نومبر کو ہوگی اور اس عمل میں ثالثوں کی موجودگی میں معاملات کی شرحِ اختلاف کم ہوئی ہے۔ طلال چوہدری نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے سے پاکستان کا موقف بین الاقوامی اور ہمسایہ ممالک دونوں نے تسلیم کیا ہے۔
خلاف ورزی کی صورت میں ردِعمل
سینیٹر طلال چوہدری نے زور دے کر کہا کہ افغان طالبان کی جانب سے جو تحریری یقین دہانی دی گئی ہے، اس کی خلاف ورزی کی صورت میں کوئی بہانہ قبول نہیں ہوگا اور پاکستان کو جواب میں کارروائی کرنا پڑی تو وہ زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہوگا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ افغانستان بعض اوقات بھارت کی پراکسی کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور پاکستان کے پاس اس کی متعدد مثالیں اور شواہد موجود ہیں؛ افغان طالبان نے خود بھی ایسے گروپوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے جو وہاں سے دراندازی کرتے ہیں۔
امن اور باہمی مفاد
طلال چوہدری نے یاد دلایا کہ افغانستان کا امن براہِ راست پاکستان کے مفاد سے جڑا ہوا ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ کسی بھی کشور کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں سرحدی انتظام اور کسی بھی خلاف ورزی کے خلاف مؤثر اور مضبوط جوابی حکمتِ عملی ضروری ہے۔













