جنوبی کوریا میں تیزی سے بڑھتی عمر رسیدہ آبادی اور کم شرحِ پیدائش کے باعث تدفین اور موت سے متعلق پیشوں کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ 50 سال یا اس سے زائد عمر کا ہے، جبکہ شرحِ پیدائش دنیا میں سب سے کم سطح پر پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نو عمر لڑکے کی خودکشی: اوپن اے آئی کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی پر والدین کا کنٹرول متعارف
اسی کے نتیجے میں تدفین سے متعلق پیشوں میں نوجوانوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ بوسان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں درجنوں طلبا کو تدفین کی تربیت دی جا رہی ہے۔
ملک میں اکیلے رہنے والے افراد کی شرح اب 42 فیصد ہو چکی ہے، جس نے تنہائی میں موت کے واقعات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ تدفین کے روایتی طریقوں میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ سیول نیشنل کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا طریقہ جنازہ جلانے کے بعد قدرتی تدفین کا تھا جسے 30 فیصد شرکا نے ترجیح دی۔
یہ بھی پڑھیے: بیٹی کی لاش 20 برس فریزر میں محفوظ رکھنے والی ماں گرفتار
دوسرے نمبر پر کالمبیرئم (انسانی نعش کی باقیات محفوظ رکھنے کا اسٹور) میں راکھ محفوظ رکھنے کا طریقہ 26.7 فیصد کے ساتھ رہا، جب کہ زمین میں تدفین کو صرف 6.2 فیصد نے چُنا۔
جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح رکھنے والا ملک بھی ہے، جس کے باعث حکومت کو عمر رسیدہ اور اکیلے رہنے والے شہریوں کے لیے سماجی و فلاحی اقدامات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔














