ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ججوں کے تبادلے اور تقرری کا منظم نظام عدالتی شفافیت اور غیر جانبداری کے لیے ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق جب کوئی جج ایک ہی ضلع میں طویل عرصہ خدمات انجام دیتا ہے تو وہ مقامی وکلا، پولیس اور بااثر طبقوں سے غیر رسمی تعلقات قائم کر لیتا ہے، جس سے عدالتی غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے اور عوامی اعتماد میں کمی آتی ہے۔ باقاعدہ تبادلے نئی سوچ، تازگی اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی علاقے میں طویل عرصہ تعیناتی سے پسند و ناپسند یا جانبداری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً تبادلوں سے ان تعلقات کے اثرات کم کیے جا سکتے ہیں، جس سے شفافیت اور احتساب مضبوط ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
جب تبادلے میرٹ پر اور غیر سیاسی بنیادوں پر ہوں تو عدالتی نظام میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اور ترقی و تعیناتی سفارش کے بجائے قابلیت اور دیانت پر مبنی ہوتی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام کامیابی سے رائج ہے۔ فرانس اور جرمنی میں عدالتی کونسلیں خود ججوں کے تبادلے اور ترقی کا نظام چلاتی ہیں۔

جنوبی کوریا میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہر چند سال بعد ججوں کی تبدیلی کی جاتی ہے، جبکہ جاپان میں ہر 3 تا 5 سال بعد ججوں کو مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی نچلی عدلیہ کے ججوں کے تبادلے عام طور پر ہر 2 تا 3 سال بعد کیے جاتے ہیں، اور برطانیہ میں ’سرکٹ ججز‘ مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتے ہیں تاکہ مقامی اثر سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:کسی کو 27ویں آئینی ترمیم پر حیرانی اور پریشانی نہیں ہونی چاہیے، ایم کیو ایم پاکستان
اسی طرح ملیشیا، کینیا، نائیجیریا اور سری لنکا میں عدالتی کمیشن یا سپریم کورٹ ججوں کی باقاعدہ تبدیلی لازمی قرار دیتی ہے تاکہ مقامی دباؤ، کرپشن اور جانبداری سے بچاؤ ممکن ہو۔
ماہرین کے مطابق عدالتی آزادی کا مطلب صرف حکومت کے دباؤ سے آزاد ہونا نہیں بلکہ مقامی اثر و رسوخ سے بھی آزاد رہنا ہے، اور یہی ججوں کے میرٹ پر مبنی تبادلوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔














