موسم کی ادا دیکھ کر یاد آیا

ہفتہ 20 مئی 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ساری دنیا گلوبل وارمنگ اور موسموں کی ترتیب میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پریشان ہے ، جب کہ اسی دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو موسموں کو بالکل اُسی نظر سے دیکھتا ہے جیسے کوئی آمر حکمران اپنی رعایا کو دیکھتا ہے، یعنی کسی مسئلہ پر نظر نہیں ڈالی جاتی ، صرف اس کا رنگ روپ دیکھا جاتا ہے؛ اس طبقے کو رومانوی طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کسی بگڑے ہوئے، ظالم اور سفاک شخص میں محبوبیت ڈھونڈ نکالتے ہیں اور عمر بھر اس کے جملے سر کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ کوئی اور سفاک شخص ان کی توجہ نہ جذب کر لے۔

کہا نہیں جا سکتا کہ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان موسموں کے بارے میں کیا رویہ رکھتا ہو گا، ہو سکتا ہے وہ صرف درجہ حرارت کو دیکھتا ہو اور اپنے رہنے سہنے کی جگہیں بدلتا ہو یا پھر ہجرت کرنے والے جانوروں کی عادتیں دیکھتا ہو اور ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہو لیکن بعد از تاریخ کےزمانے میں موسموں کے بدلنے سے ابن آدم نے فصلیں اگائیں اور بعد ازاں موسمی پھل اور سبزیاں کھانے کے حق میں بیانیے تشکیل دیے تاکہ سب لوگ تیزی سے پھل اور سبزی کی فصل خراب ہونے سے پہلے پہلےاستعمال کرلیں۔ اچھی یادداشت والی اقوام کے ہاں آج بھی وہ بیانیے زندہء جاوید ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹینڈے، بینگن اور کریلے کو گوشت اور قیمے پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے، کوئی بھی ذہین شخص جس کو خدا نے چکھنے کی تھوڑی سی بھی صلاحیت دی ہو، ایسی سادگی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ سچ ہے بیانیے اور نظریے انسان کی عقل پر عقیدت کی پٹی باندھ دیتے ہیں۔

جب سے موسموں نے بغیر بتائے آنا جانا شروع کر دیا ہے ، انسانوں نے بند کمروں (گرین ہاؤس) کے اندر فصلیں اگا کر موسموں کو آزاد کر دیا ہے۔ اب موسم آرٹ اور کرافٹ میں استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آرٹ کو ہمیشہ فائدے کے لیے برتے جانے کا رحجان غالب ہے اس لیے گرمیوں کے موسم کو طرح طرح کی لسی اور شربت بنانے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے، اس سے پورے معاشرے کا بھلا ہوتا ہے، جہاں شربت کی صنعت فروغ پاتی ہے وہاں صحت کی صنعت سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے، لوگ ذیابیطس سے پریشان ہوتے ہیں تو دل کے دورے کا ڈر بیٹھ جاتا ہے، اس کی دوا لیتے ہیں تو فشار ِخون پر قابو نہیں رہتا، اس کے علاج سے معدہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے، جلد ہی بنک سے قرض مانگنے کی نوبت آ جاتی ہے جس سے ملک میں موجود رقم گویا مہنگی قیمت میں بک جاتی ہے، ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آئے۔

بارش کے موسم میں البتہ شاعرانہ مزاج کے لوگوں کا دل بھر آتا ہے اور انھیں گزشتہ محبوب نیکی کا پتلا معلوم ہوتے ہیں، نئے محبوبوں کے ظلم کی نسبت پرانی ستم شعاریاں معصوم ادائیں لگتی ہیں، آنکھوں سے ننھے منھے آنسوؤں کی لڑی بھی بہنے لگتی ہے، ایسے میں بیگم کو پاس سے بھگانے کا عمدہ نسخہ ان کے ہاتھ لگا ہے کہ وہ اسے پکوڑے بنانے بھیج دیتے ہیں۔

ہندوستان کے لوگوں نے عجب غیرمتوازن انداز میں زندگی کو آسان کیا ہے ،یعنی آری ،پیچ کس اور ہتھوڑے تو آٹومیٹک آ گئے ہیں لیکن روٹی پکانے اور پکوڑے بنانے کا کوئی جدید طریقہ رائج نہ ہوا۔ کسی اور دنیا کے لوگوں کو اگر پوری دنیا کی سیر کرائی جائے تو وہ حیران ہوں گے کہ روٹی پکانا سال میں ایک بار بھی مشکل تھا لیکن ایک فارغ قوم ہر روز تین بار یہ کام کرتی ہے۔ آٹا گوندھنا ایک ایسا عمل ہے کہ کوئی بےچین طبیعت کا انسان قطعاً اس کام میں ہاتھ نہ ڈالے۔ اس کی مثال مراقبہ کرنے جیسی ہے ، ادھر آپ نے نیت باندھی ادھر تکلیف دہ کام یاد آ گئے۔پھر روٹی پکانا یعنی توا گرم کر کے، ایک سائنسی عمل سے نیم سیال آٹے کا متناسب، متوازن اور گول پیڑا بنانا، پھر اس کو ہر طرف سے بیلنا اور ہاتھوں میں جھاڑ کر مزید پھیلانا کوئی سادہ عمل نہیں ہے، اور پھر پکانا۔۔۔ شاید کسی نے اس پر توجہ نہ دی ہو کہ روٹی پکانا دراصل روٹی بیک کرنا ہے، جو تیز رفتار سے بیک ہوتی ہے، مناسب وقت پر الٹنا پلٹنا بھی اس فن کا اہم حصہ ہے ، بعض خواتین اس میں اتنی ماہر ہو جاتی ہیں کہ توے پر روٹی پکاتے ہوئے اس پر پسند کے پھول بھی بنا لیتی ہیں، ناپسند افراد کے لیے ان پھولوں کو بڑے پیمانے پر سیاہ کر دیا جاتا ہے۔

خیر اس سے بھی زیادہ پیچیدہ کام پکوڑے بنانے کا ہے، بیگم جب پکوڑے بنا کر باورچی خانے سے باہر آتی ہیں تو موسم بدل چکا ہوتا ہے، ابر بھی تھم جاتا ہے اور ان کی چشم ِنم بھی خشک ہو جاتی ہے بس بیگم کی پیشانی پر نمی چمکتی رہتی ہے جس پر روایتی شوہر بیگم کے حسن کے تعریف کر کے امن قائم رکھتے ہیں۔

ہم نے بےشمار ملکوں کے کھانے کی ترکیبیں دیکھی ہیں لیکن کہیں بھی روٹی، پکوڑےسموسے اور کوفتے جیسی دقت نہیں دیکھی۔ ہاں اس میں چاپ اسٹک سے کھانے والے ہم پر بازی لے گئے ہیں کہ یہ ہنر بھی روٹی کا نوالہ توڑ کر اس میں سالن بھر کر باتیں کرتے ہوئے چبانے سے کم نہیں۔

اس دنیا میں معدودے چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کو بارش کے موسم سے دیوانگی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ یہ وہی دورہ ہے جو حساس لوگوں کو جھیل سیف الملوک پر چودہویں کے چاند کو دیکھ کر پڑتا ہے، جھیل میں تو ڈوب کر مر جانے کی سہولت ہے لیکن ہلکی پھلکی بونداباندی میں سوائے پھسل کر ہڈی پسلی توڑ لینے کے کوئی تسلی بخش علاج دریافت نہیں ہوا۔

جس زمانے میں انسانیت ارتقا پذیر تھی اور دیگر جانوروں سے حصے مانگ تانگ کر آگے بڑھ رہی تھی، ایسے لوگوں نے برساتی کیڑے مکوڑوں اور مینڈکوں کے جینیاتی مادے کو زیادہ حفاظت سے رکھ لیا تھا۔ ہمیں بھی انہی میں شمار کیا جا سکتا ہے کیوں کہ بارہا بارش کے موسم میں ہم نے لوگوں کو بلاوجہ معاف کیا ہے، کئی بار گھر میں محض بارش کے موسم کی وجہ سے ہم نے صفائی کی اور مزے دار کھانا پکا کر اپنی دعوت کی، اپنے شوہر کو غیر سمجھ کر اچھا برتاؤ کیا، دنیا پر محبت کی نگاہ ڈالی ، گوکہ بجلی بند تھی، پانی نہیں تھا، گلی دریا بنی ہوئی تھی اور گٹر ابل کر دریا میں شامل ہو رہا تھا، ہم نے بےاختیار خدا کا شکر ادا کیا؛ از بس کہ بارش کے موسم میں ہماری جو شخصیت ہوتی ہے اصل میں اس سے ہمار کوئی تعلق نہیں۔ ناسمجھی کے زمانے میں ہمارا پختہ خیال تھا کہ شاید بارش کو پسند کرنا اور گرمی کے موسم کو ناپسند کرنا ایک آفاقی حقیقت ہے، دنیا کے سب انسان ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔

اس حقیقت سے پردہ تب اٹھا جب شہر لاہور سے ہمارا پالا پڑا۔ اہل ِلاہور کی ایک خوبی ہے کہ وہ ہر خوبی کو صرف اور صرف لاہور تک محدود سمجھتے ہیں؛ سب سے اچھا موسم لاہور کا، سب سے اچھی بارش لاہور کی، سب سے اچھے لوگ، سب سے اچھے بازار ، سب سے اچھے عوام، حکمران ، ادیب ، گرمی، سردی، شاگرد، شاعر، استاد، ادارے، ڈرائیور ، بھنگی ، لٹیرے، چور اچکے تک صرف اور صرف لاہور کے ہی اچھے ہیں۔

آپ اگر کہیں ،”پنڈی میں بڑی گرمی ہے “تو لاہور والے ضرور کہیں گے “گرمی تو یہاں ہے، وہ حبس ہے کہ دوزخ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔” آپ کسی دن ترنگ میں بتائیں کہ “بھئی یہاں بارش ہو رہی ہے”، تو وہ کہیں گے،” بادل یہاں بھی آ گئے ہیں، ہم نے تو صحن سے چیزیں بھی سمیٹ لی ہیں”، آپ کسی دن بےتابی سے بتائیں گے کہ “یہاں تو ٹھنڈی ٹھار ہوا چل رہی ہے، پنکھے کی رفتار کم کر دی ہے”، تو وہ کہیں گے،”ہم نے رات کھیس نکال لیے تھے اور اب پنکھے بند کر کے کپکپا رہے ہیں۔”اس کو بھی ہم براداشت کر لیتے

لیکن جب لاہور میں رہنے والی ہماری سہیلی نے ایک بار ہمیں اپنے دل کی بات بتائی تو ہم سے رہا نہ گیا، ہمارا بھی وہی حال ہوا جیسے ارشمیدس کا پانی میں اچھال کا اصول دریافت کرنے پر ہوا تھا، ہماری سہیلی نے ہمیں بتایا کہ ان کو گرمی کا موسم پسند ہے، ایسا اچھا کھلا کھلا موسم، دروازے کھڑکیاں خوب صورت لہراتے پردوں کے ساتھ کھلی رہتی ہیں، پنکھے چلتے ہیں تو بستر کی اجلی چادریں ہنستی ہیں، نہانے دھونے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے، دھلا ہوا فرش، ہرے بھرے پودے، آم اور تربوز، چٹنی ،اچار اور لسی۔۔۔ المختصر گرمی کے موسم کو ایسے رومانوی انداز میں میں نے آج تک نہ دیکھا تھا، ہم نے تو ہمیشہ بستر میں گھس کر مونگ پھلی کھانے کو ہی اچھے موسم کی معراج سمجھا تھا۔

جب ہم نے دیکھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں مجموعی طور پر سورج اور دھوپ کی محبت ایک فیشن ہے اور سردی سے بچنے کے لیے دبئی میں خریداری کر کے چھٹیاں منانا ان کا خواب ہے تو گرمی کی محبت کے جرم کو ہم نے معاف کر دیا لیکن ہم ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتے جنھوں نے بارش کی خوب صورتی، خوش بو، تازگی، روحانیت اور خوشی کو ہم سے چھین لیا،اس کے بجائے بارش میں کیچڑ سے ہونے ولی تنگی، برسات میں روشنی پر آنے والے پتنگے اور بدبو دار بیٹلز(Beatles)، مینڈک، مچھر، حبس ، پسینہ اور پیاس کے تذکرے سے ہماری معصومیت کا وہی حال کیا جو اس بچے کا ہوتا ہے جو دن کی لو میں جگنو کو دیکھ لے۔اب اشک ِرواں کی لہر کی طرح ہم بارش کو دیکھتے ہیں، لاہوریوں کی لاثانی بارش میں کئی قدم رکھ لیتے ہیں لیکن کیا مجال جو بارش کی ایک بوند بھی جسم پر محسوس ہو، گرم تیل جیسی بارش میں پسینہ تک نہیں سوکھتا، منہ تک نہیں دھلتا، کہاں راولپنڈی ،اسلام آباد کی بارش کہ نام سے ہی روح میں ٹھنڈک پہنچ جائے، بارش میں کچھ بوندیں چھو جائیں تو سردی لگ جائے، بارش کے بعد شال اوڑھنے کا دل کرے اور آرام سے ہلکے پنکھے میں سرور آ جائے۔ شہروں سے فطری محبت کا کمال ہے کہ ہر کوئی اپنے شہر میں خوش اور مگن رہتا ہے، وطن سے محبت نہ ہوتی تو ہم بھی کسی سرد اور بارش والے علاقے میں منتقل ہو کر چین کی بنسی بجایا کرتے۔

جدید دور میں ہر چیز جنگی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے، دشمنوں نے جب دیکھا کہ اللہ نے ہمیں موسموں کے ساتھ خاص لگاوٹ والا نرم اور گداز دل عطا کیا ہے تو انھوں نے اس خوبی کو ہماری کمزوری جانا، شنید ہے کہ اب ان کے پاس ہارپ (HAARP Technology) ہے جس سے وہ سورج کی شعاعوں کوگرفتار کرتے ہیں یعنی جب چاہتے ہیں بادل برسا دیتے ہیں ، زمین دہلا دیتے ہیں یا بادل بھگا دیتے ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ قوم تیار ہو کر دفتر جانے لگی مگر دشمنوں سے دیکھ نہ گیا انھوں نے ہلکے بادل اور بارش کی پھوار بھیج کر قوم کے کام کے موڈ کو برباد کر ڈالا، پھر بارش بھی کھل کر نہ کوئی اور وہ لوگ گھر میں گھریلو تشدد کا شکار ہوئے حتی کہ بعد از دوپہر ان کو آرام و سکون کی تلاش میں دفاتر کا رخ کرنا ہی پڑا۔

اس طرح کے مظالم کی کہیں کوئی شنوائی نہیں، موسموں کے ستم کا شکار قوم پرسکون ہو کر موسیقی بھی نہیں سن سکتی، جب جدید مصائب تیار ہو گئے ہیں تو ان کے خلاف شکایات سننے اور حل کرنے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ ہم نے تو محسوس کیا ہے کہ ہمارے قائدین خود بھی اسی جبر کا شکار ہیں، جب وہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو سردی کی شدت بڑھ جاتی ہے، دھرنا دیں اگر تو اولے پڑ جاتے ہیں، بارہا ہم نے دیکھا کہ وہ کہیں گئے اور وہاں سیلاب آ گیا، پھر ان کو سیلاب کے پانی میں گھٹنوں تک ڈوبے بھی دیکھا۔ دعا ہے کہ بھئی یہ موسموں کی ذمہ داری خدا اپنے ہاتھ میں رکھ لے اور دعاؤں کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا کرے۔ اے اللہ! تمام شہری علاقوں میں پھوار بھیج دے اور گندم کی کٹائی کے علاقوں میں سڑک کے مخالف سمت کے رخ کی ہوا بھیج تاکہ بھوسے کی پھوار سے مسافر محفوظ رہیں اور بارش سے بھوسہ محفوظ کر دے۔ آمین

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp