وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سے متعلق بین الاقوامی ادارے پر ایک خبر شائع ہوئی جسے غلط تناظر میں پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پاکستان افغانستان میں دراندازی یا فوجی آپریشن کے لیے تیار ہے، حالانکہ خواجہ آصف نے واضح موقف اختیار کیا کہ پاکستان مذاکرات کی کامیابی کے لیے نہ صرف کوششیں کررہا ہے بلکہ دعاگو بھی ہے، لیکن اگر ناکامی کی صورت میں افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ اگر افغانستان نے پاکستان پر حملہ کیا گیا یا سرحد پار سے کسی قسم کی دراندازی ہوئی تو ملک کا دفاع کرنا پاکستان کا بنیادی حق ہے، جیسا کہ دنیا کے ہر خودمختار ملک کو حاصل ہوتا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان میں کہا کہ افغانستان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان میں حملے کے لیے بطور ایجنٹ استعمال کررہا ہے اور پاکستان میں مرنے والے دہشتگردوں میں 55 فیصد افغانی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان میں حملے کے پیچھے پوری طرح کھڑی ہے۔
وزیرِ دفاع نے کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان سے جاری مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سرزمین کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
خواجہ آصف نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں اور کابل میں بھارتی اثرورسوخ اس راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مرتبہ چیزوں پر اتفاق بھی ہوا مگر وہاں سے ایک کال پر سب خراب ہوجاتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کابل میں بھارتی حمایت یافتہ لوگ بیٹھیں جو اس پورے معاملے کو خراب کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی وفد نے قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات کا دور بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
خواجہ محمد آصف نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے افغان قیادت کو دانشمندی سے کام لینا چاہیے کیونکہ پاکستان ہمیشہ سے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات اور سرحدی سلامتی کے لیے کوشش کرتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور اگر کسی بھی ملک کی جانب سے جارحیت کی کوشش کی گئی تو اُس کا جواب بین الاقوامی قوانین کے مطابق دیا جائے گا۔














