وفاقی شرعی عدالت نے جمعہ کو ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 پر اپنا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شریعت کسی کو نامرد ہوکر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی ایسا کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔
شرعی عدالت نے خواجہ سرا کی تعریف سے متعلق ایکٹ کے سیکشن 2 این تھری کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے بہت سے احکامات اور عبادات کا تعلق کسی انسان کی حیاتیاتی (پیدائشی) جنس سے ہے نہ کہ اس کے محسوسات سے کہ وہ خود کو کیا محسوس کرتا ہے۔ اس لیے سیکشن 2 این تھری خلاف شریعت ہے اور اس کا کوئی قانونی اطلاق نہیں ہو گا۔
اسی طرح ٹرانسجینڈر پرسنز ایکٹ کی شق 2 ایف کو بھی خلاف شریعت کہا گیا ہے اور یہ بھی خواجہ سرا کی تعریف کے حوالے سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنسی شناخت کا مطلب ایک شخص کے اندر پائے جانے والے وہ محسوسات ہیں جن کی بنیاد پر وہ خود کو مرد، عورت، دونوں کا ملغوبہ یا دونوں کے برخلاف سمجھتا ہے۔ ایک شخص کے محسوسات کی بنیاد پر اس کی جنسی شناخت اس کی پیدائش کے وقت جنسی شناخت کے مطابق بھی ہو سکتی ہے اور اس کے خلاف بھی۔
وفاقی شرعی عدالت نے مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 3 کو بھی خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ سیکشن 3 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ٹرانسجینڈر خود سے اپنی جنس کا تعین کرکے اپنی تمام شناختی دستاویزات میں اندراج کروا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیکشن 7 کو بھی خلاف شریعت قرار دیا گیا ہے۔ سیکشن 7 ٹرانس جینڈر شخص کے حق وراثت سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ٹرانسجینڈر پرسن خود کو ٹرانسجینڈر مرد قرار دیتا ہے تو اسے مرد کے حساب سے وراثت میں حصہ ملے گا اور اگر وہ خود کو ٹرانسجینڈر عورت کے طور پہ شناخت کرتا ہے تو اس کو وراثت میں بطور عورت حصہ ملے گا۔ شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنس اور صنف دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی لیکن صنف کوئی بعد میں بدل سکتا ہے لیکن وراثت میں حصہ جنس کی بنیاد پر ملے گا۔
ایکٹ کی شق 2 این میں جنسی اعتبار سے مختل پائے جانے والے افراد کی ان کے خصائص کی بنیاد پر تعریف کی گئی ہے۔ سیکشن 2 این کی ذیلی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ خنثٰی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے جنسی اعضا مردوں اور عورتوں کا مکسچر ہوں۔ اور اس کے جنسی خصائص میں ابہام ہو 2 این کی ذیلی شق 2 کے مطابق خسرا ایک ایسا شخص ہے جو پیدائشی طور پر مرد ہوتا ہے لیکن بعد میں خصی ہونے کے عمل سے گزر کر خسرا بن جاتا ہے۔
2 این کی ذیلی شق 3 ٹرانسجینڈر مرد، ٹرانسجینڈر عورت اور خواجہ سرا کی تعریف کچھ یوں کرتی ہے کہ ایسے افراد جن کا جنسی رویہ ان کی پیدائش کے وقت جنسی شناخت کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مذکورہ تعریف کے مطابق ٹرانسجینڈر مین، ٹرانس جینڈر ویمن اور خواجہ سرا کا جنسی رویہ سماجی اور ثقافتی اعتبار سے بھی مختلف ہوتا ہے۔
ایکٹ کی اس شق کے بارے میں عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ مختلف اصطلاحات جیسا کہ خسرا، خنثیٰ، ٹرانسجینڈر مرد، ٹرانسجینڈر عورت یا خواجہ سرا ان سب کو ایک ہی اصطلاح ٹرانسجینڈر پرسن میں سمو دیا گیا ہے جس سے سارے معاملے کو الجھا دیا گیا ہے۔
عدالت نے لکھا ہے کہ یہ تمام طرح کے افراد نہ صرف جسمانی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ ان کے مختلف ہونے کی بنیاد پر شرعی قوانین بھی مختلف ہیں۔












