پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر فائرنگ کا واقعہ ہوا ہے تاہم اس پر قابو پالیا گیا ہے جبکہ پاکستانی وفد اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان استبول میں مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے جس کے نیتجہ خیز ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیز فائر برقرار، چمن میں فائرنگ افغانستان کی جانب سے کی گئی، پاکستان نے کابل کے دعوے مسترد کردیے
وزارت اطلاعات کی جانب سے جمعرات کی شام جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ افغانستان کی جانب سے کی گئی جس کے جواب میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے فوری، ذمہ دارانہ اور متوازن کارروائی کی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی کی بدولت چمن سرحد پر پیدا ہونے والی کشیدگی پر قابو پا لیا گیا اور موجودہ جنگ بندی برقرار ہے۔
پاکستان نے چمن میں پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے افغانستان کی جانب سے پھیلائے گئے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فائرنگ پاکستان نہیں بلکہ افغانستان کی طرف سے کی گئی۔
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان
مزید پڑھیں: طالبان حکومت اپنے عالمی وعدوں کی ذمہ دار ٹھہرائی جائے، پاکستان کا مطالبہ
مذاکرات کی کوریج کے لیے استبول میں موجود پاکستانی صحافی انس ملک کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز پاکستان کے وقت کے مطابق سہ پہر 3 بجے شروع ہوا اور اس میں بشمول ثالثین قطر اور ترکیہ چاروں فریقین کے انٹیلجنس سربراہان شامل ہیں۔
انس ملک نے بتایا کہ ثالثین الگ الگ ملاقاتیں کر رہے ہیں یعنی جب ایک ثالث پاکستان سے ملاقات کرتا ہے تو اسی وقت دوسرا ثالث افغان طالبان سے ملتا ہے
انہوں نے کہا کہ آج کے مذاکرات کلیدی ہیں کیوں کہ چاروں جانب سے انٹیلیجنس چیفس شامل ہیں اور 2 سے 3 دن میں امید ہے کہ یہ سلسلہ کسی نہ کسی سیاسی معاہدے پر ختم ہوگا۔
پاکستان کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف مذاکرات کا حصہ کیوں نہیں؟
انہوں نے کہا کہ قطر اور ترکیہ کا کہنا تو یہ تھا کہ سیاسی لیڈرشپ بھی ہو لیکن دونوں فریق اس پر تیار نہیں تھے کیوں کہ پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وزیردفاع کو بھیجنے پر تیار ہے لیکن کیا افغانستان یہ یقین دہانی کراسکتا ہے کہ اس کے وزیر دفاع بھی اتنے ہی بااختیار ہوں گے یا اس مرحلے کا بھی گزشتہ مرحلوں کی حشر ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے جو انٹیلجنس چیف ہیں وہ قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ بھی رکھتے ہیں اور وہ پاکستانی وفد کو لیڈ کر رہے ہیں۔
کیا آج کوئی پیشرفت ہوجائے گی؟
انس ملک کا کہنا تھا کہ آج تو کوئی معمولی پیشرفت ہی ہوسکتی ہے کیوں کہ پہلے بلاواسطہ مذاکرات ہیں اور پھر بالواسطہ بات چیت ہوگی اور اول الذکر کے لیے یہ بھی طے نہیں کہ اس کا دورانیہ کتنے گھنٹے پر محیط ہوگا۔
مذاکرات میں تعطل کیوں آیا؟
انس ملک کا کہنا تھا کہ پہلے جب مذاکرات جاری تھے تو پاک افغان بارڈر پر فائرنگ کا واقعہ ہوا جس سے بات چیت کا سلسلہ تھوڑے وقفے کے لیے رک گیا تھا تاہم اب وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیں: استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف
انہوں نے بتایا کہ ان کی اب تک طالبان کے نمائندوں سے کوئی گفتگو نہیں ہوسکی جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سخت سیکیورٹی حصار ہے اور براہ راست کوئی بات کرنے (صحافیوں سے) پر طالبان تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا 7 رکنی وفد یہاں موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے 7ویں رکن ان کے سفیر ہیں جبکہ دیگر 6 میں عبدالحق واثق بھی شامل ہیں جو جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس کے سربراہ ہیں اور بدھ کی دوپہر استبول پہنچے تھے۔
انس ملک نے کہا کہ پاکستان اور افغان طالبان دونوں ہی کشیدگی کا حل اور امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں وفود میں فیصلہ کرنے کے مجاز اشخاص شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب توقع یہی کی جارہی ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے مطالبات پر لچک کا مظاہرہ کیا جائے گا اور وہ یہ مان کر معاہدے کو محض زبانی کی بجائے تحریری شکل میں لانے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
پاک افغان مذاکرات: سہولت کاری پر ترکیہ کے شکر گزار ہیں، وزیراعظم
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور ترکیہ کے شہر استنبول میں جاری ہے، جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سکیورٹی حکام شریک ہیں۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر تفصیلی بات چیت کی جا رہی ہے۔
ترکیہ اور قطری حکام کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
ادھر ترکیہ کے وزیر داخلہ کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی ہے، جس میں شہباز شریف نے کہاکہ استنبول میں پاک افغان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کرنے پر ترکیہ کے شکر گزار ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملاقات میں ترک صدر رجب طیب اردوان کے لیے تہنیتی پیغام دیا۔ وزیراعظم نے سیکیورٹی، انسداد دہشتگردی، انسداد منشیات، پولیس کی تربیت، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، تجارت اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
’دوحہ مذاکرات میں سیز فائر پر اتفاق کیا گیا‘
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب گذشتہ ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔
بعد ازاں 25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے کئی ادوار کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، تاہم فریقین نے 6 نومبر تک جنگ بندی میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان مسلسل افغان طالبان حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب تک افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی واضح پیشرفت نہیں ہوئی۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اجلاس میں دونوں ممالک جنگ بندی کے نفاذ کے طریقہ کار کو حتمی شکل دیں گے اور ایک نگرانی و تصدیقی نظام قائم کرنے پر
اتفاق ہوا ہے، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی پر کارروائی یقینی بنائے گا۔
خواجہ آصف نے واضح موقف اختیار کیا کہ پاکستان مذاکرات کی کامیابی کے لیے نہ صرف کوششیں کررہا ہے بلکہ دعاگو بھی ہے، لیکن اگر ناکامی کی صورت میں افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کا مؤقف
اسلام آباد میں سیکیورٹی حکام کے مطابق پاکستان کا مرکزی مطالبہ یہ ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور اس حوالے سے قابلِ تصدیق اقدامات کرے۔
مزید پڑھیں: پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
حکام نے بتایا کہ پاکستان ثالث ممالک قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہتا ہے اور امن و استحکام کے لیے نیک نیتی سے کوشاں ہے۔
مذاکرات کا پس منظر
اکتوبر کے اوائل میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد درجنوں فوجی شہید اور عام شہری جاں بحق ہوئے۔
افغانستان نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے کابل اور مشرقی علاقوں پر فضائی حملے کیے، جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کارروائیاں افغان
سرزمین پر موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کی گئیں۔
ان جھڑپوں کے بعد قطر نے ہنگامی سفارت کاری کے ذریعے 19 اکتوبر کو جنگ بندی کرائی، جس کے بعد فریقین استنبول میں مذاکرات کی میز پر آئے۔
افغانستان اور پاکستان کا مشترکہ اعلامیہ
ترکیہ، قطر، پاکستان اور افغان طالبان کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام فریقین جنگ بندی کے تسلسل پر متفق ہیں اور اس کی نگرانی کے لیے ویری فکیشن میکانزم تشکیل دیا جائے گا۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق پر کارروائی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
پاکستان امن چاہتا ہے، مگر افغان سرزمین سے دہشتگردی برداشت نہیں کی جائے گی، فیلڈ مارشل عاصم منیر
پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں سے امن چاہتا ہے، مگر افغان سرزمین سے دہشتگردی برداشت نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پشت پناہی کرکے خیرسگالی کے جذبے کو کمزور کیا ہے۔
تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری نہیں آ سکی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری نہیں آ سکی۔
مزید پڑھیں: افغانستان کا معاملہ پیچیدہ، پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان
انہوں نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں ایک کپ چائے کے لیے گئے تھے، لیکن وہ چائے بہت مہنگی پڑی۔ پچھلی حکومت کے فیصلوں کے نتیجے میں 35 سے 40 ہزار طالبان واپس آئے اور 100 ایسے مجرموں کو رہا کیا گیا جنہوں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔













