نیم تاریک کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جاں بلب مریضہ کا معائنہ کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ٹیم کا سینیئر ڈاکٹر خاندان کے بزرگ کی طرف مڑا اور ان کے کان میں آہستہ سے کہا کہ کوئی امید باقی نہیں رہی اس لیے آخری لمحات میں آپ اپنے مریض کے ساتھ رہیے گا۔
اس مریضہ کا نام کلثوم نواز تھا اور وہ سابق منتخب وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ تھی۔ انہی دردناک لمحوں اور بے بس ساعتوں میں خوفِ خدا اور تہذیب سے عاری ایک سرکش گروہ نے مشکلات اور مصائب سے دوچار خاندان تو کیا کہ آخری سانسیں لیتی مریضہ تک کو گالم گلوچ اور تضحیک کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ بلکہ معاملہ اتنا آگے گیا کہ عمران خان کا ایک پیروکار ہسپتال کے کمرے میں گھس کر مذاق اڑانے اور بد تمیزی کرنے لگا۔
عین انہی دنوں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے جہاز پکڑا اور وطن واپس روانہ ہوئے کیونکہ ان کی وہ درخواست ہائبرڈ رجیم کی ثاقب نثاری عدالت نے رد کر دی تھی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ کلثوم نواز کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ رہنے کے لیے انسانی بنیادوں پر ہمیں چند دن کی مہلت دی جائے۔
اسی دن سرِ شام باپ بیٹی لاہور ایئرپورٹ پر اترے اور انہیں حراست میں لے کر جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں ایک خاتون (مریم نواز ) کے بیرک اور باتھ روم کو کیمروں سے ’سجایا‘ گیا تھا تا کہ مملکتِ خداداد کے وزیراعظم عمران خان لیپ ٹاپ پر ان کی بے بسی سے ’لطف اندوز‘ ہوتا رہے۔
اس کے علاوہ ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان نے اشارہ کیا اور آخری ہچکیاں لیتی کلثوم نواز کی بے جان ہوتے جسم کو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کے چوراہے میں ایک ایسی گالم گلوچ طنز و تضحیک اور تذلیل و تحقیر کے ساتھ کھینچا جانے لگا کہ کوئی حیا دار آدمی اس کا ذکر کرنا بھی نہیں چاہتا۔
یہ کراہت آمیزی خان صاحب کی ’لطف اندوزی‘ کی خاطر تسلسل کے ساتھ ہوتی اور پھیلتی رہی۔
آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔
سچائی اور حق پرستی پر ڈٹے مطیع اللہ جان نے ’مثبت رپورٹنگ‘ سے انکار کیا اور ہائبرڈ رجیم کے تخلیق کاروں فیض حمید اور باجوہ کے شکنجے میں آ کر ’غائب‘ کر دیا گیا تو اس کی اہلیہ اپنے کم عمر بیٹے کے ساتھ تمام دن دہشت اور سراسیمگی کے عالم میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بھاگتی رہی۔ لیکن کسی ذمہ داری کا احساس یا کوئی ہمدردی تو کجا اُلٹا پنے زیر اثر سوشل میڈیا کے سفاک غول کو فرعون وقت کا پھر سے اشارہ ہوا اور مشکلات میں گھرا ہوا چھوٹا سا خاندان تذلیل و تضحیک کے نشانے پر آگیا۔
تکبر رعونت اور انا پرستی کی کہانیاں اتنی طویل اور خوفناک ہیں کہ سننے سنانے کو بھی دل گردہ چاہیے لیکن پھر بھی چند واقعات دہرانے میں کیا حرج ہے۔
اپنے سیاسی مخالف رانا ثناء اللہ پر صرف ہیروئن کا جھوٹا مقدمہ نہیں بنایا گیا بلکہ دوران حراست چھوٹی سی بیرک میں چینی چھڑک دی جاتی تا کہ ہزاروں چیونٹیاں اور رات بھر جلتے ہوئے بلب میں بلکتے ہوئے بیمار قیدی کی بے بسی کا ’لطف‘ اٹھایا جائے۔
معاملہ صرف یہاں تک نہیں تھا بلکہ جہاں ’کیمرے‘ سے کام نہ چلتا وہاں سوشل میڈیا کے انقلابیوں کو مخالفین کی تکہ بوٹی کرنے کا حکم ملتا، اور خان صاحب اس حوالے سے خود بھی سوشل میڈیا کے جہادیوں کے شانہ بشانہ بلکہ لیڈ کرتے نظر آتے۔
اور پھر ۔۔۔
نواز شریف کے اے سی اتروانے کی دھمکی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری پر اخلاق باختگی کی انتہا کو چھوتی ہوئی چوٹ تھی۔
مولانا فضل الرحمن کو بھرے جلسوں میں توہین آمیز انداز میں فضلو اور ڈیزل کہہ کر پکارنا تھا۔
مریم نواز کے حوالے سے ’میرا نام لینے پر تمہارا شوہر ناراض ہو جائے گا‘ جیسا جملہ بولنا تھا۔
ایمل ولی کو میلو (ریچھ ) بولنا تھا۔
یا محمود خان اچکزئی کے روایتی لباس اور چادر کا مذاق اڑانا تھا۔ خان صاحب کی بے چین روح کو قرار لمحہ بھر کو بھی نہیں آیا۔
اس دوران ہائبرڈ رجیم میں عمران خان کے بصیرت افروز خطابات بول ٹی وی، میجر عادل راجا جیسے یوٹیوبرز اور پی ٹی آئی کے فیس بک پیجز سے ذہنی ’نشو و نما‘ پاتے سوشل میڈیا کے ’دانا‘ بھی اپنے رہنما کے حکم اور ’تربیت‘ کے مطابق ریاست مدینہ کی تشکیل کے لیے اپنا بھرپور ’کردار‘ ادا کرتے ’امت مسلمہ کے عظیم لیڈر‘ کو خوش کرنے کے لیے کمک فراہم کرتے اور ان سے شاباش وصول کرتے رہے۔
اس شاباش کا شاخسانہ حنیف عباسی شاہد، خاقان عباسی، خواجہ آصف اور سعد رفیق کی بے گناہ اسیری تھی۔ احسن اقبال کے جسم کو چیرتی ہوئی گولی تھی۔ میاں افتخار حسین کا شہید ہوتا اکلوتا بیٹا تھا۔ بلور خاندان کے آنگن میں پہنچتی لاشیں تھیں، شدید زخمی ابصار عالم کے جسم سے خون کا اُبلتا فوارہ تھا، یا سلیم صافی کی عبادت گزار اور بیمار ماں کی آخری سانسیں تھیں، اختلاف کرنے والے صحافیوں اور دوسری جماعتوں کے کارکنوں کی مائیں بہنیں تھیں، بے گناہی کے باوجود الزام و دشنام میں لَت پَت سرنگوں ہونے کی بجائے اصول پر ڈٹ جانے والے ججز، سرکاری افسران اور پولیس والے تھے یا بلوچستان میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے فوجیوں کی بکھری ہوئی لاشیں تھیں۔ سب مخالفت کے ’مجرم‘ ٹھہرتے اور یکساں’سزا‘ کا سامنا کرتے رہے۔
یہ غول (دوران اقتدار بھی اور اقتدار کے بغیر بھی) ایک عشرے تک ہر مخالف کی تذلیل اور اپنے لیڈر کی تسکین کے لیے مسلسل ’حالت جنگ‘ میں رہا اور پھر اس سفاک اور سرکش پس منظر کے ساتھ اچانک 9 مئی کا دن آگیا جس سے کے بطن سے عبرت انگیز منظر نامہ طلوع ہوا۔
اور پھر ۔۔۔
تکبر اور رعونت لاچارگی اور بے بسی میں ڈھل گئی۔
جارحانہ لہجہ منت سماجت کا روپ دھار گیا۔
دھمکیاں دینے والا مذاکرات کی بھیک مانگتا دکھائی دیا۔
موسیقی اور رقص سے ایک سرمستی میں پیہم گونجتا زمان پارک اجڑے ہوئے دیار کا نوحہ خواں بن گیا۔
چند دن پہلے کروڑوں میں انتخابی ٹکٹ خریدنے والے وہی ٹکٹ پھینکنے لگے۔
زرق برق ملبوس میں ناچتی گاتی قطاروں کی جگہ وردی پوش رینجرز اور پولیس نے سنبھال لی۔
’اوئے فلاں میں تمہیں دیکھ لوں گا‘ ۔۔۔ کہنے والا اپنے آخری ٹوئٹ کی دہائی دینے لگا۔ مقبولیت حصے بخروں کا شکار ہونے لگی۔ ماں بہن کی گالیاں دینے والے ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگے۔ باجوہ اور فیض حمید کا ہائبرڈ رجیم اور آر ٹی ایس قصہ پارینہ بن گیا۔ منصفوں کی کمک پسپا ہو چکی اور ثاقب نثار کا بخشا صادق و امین کا ٹائٹل القادر ٹرسٹ کے پہاڑ تلے ریزہ ریزہ ہو چکا۔
میں غیر متوقع طور پر تبدیل ہوتے منظر نامے اور برق رفتاری سے فنا ہوتی بد رنگ سیاست کے بارے میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ سب کچھ اچانک کیسے اور کیونکر ہوا؟ دفعتاً ذہن میں قرآن پاک کی آیت روشنی بکھیر گئی اور ہر سوال کا جواب ملتا چلا گیا:
’ تلک الایام نداولھا بین الناس ‘
ترجمہ:یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔