ایران کی حکومت نے ملک کی بدترین خشک سالی کے باعث دارالحکومت تہران میں پانی کی فراہمی وقتاً فوقتاً بند کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
مقامی حکام کے مطابق رواں سال تہران میں بارش کی مقدار گزشتہ ایک صدی میں سب سے کم ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ ملک کے نصف صوبوں میں کئی ماہ سے ایک بوند بارش نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے: تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق بعض علاقوں میں رات کے وقت پانی کی فراہمی پہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایران کے وزیرِ توانائی عباس علی آبادی نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ یہ اقدام پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے ضروری ہے، اگرچہ اس سے عوام کو کچھ تکلیف ضرور ہوگی۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے جمعے کے روز اپنے خطاب میں خبردار کیا تھا کہ اگر رواں سال کے اختتام تک بارش نہ ہوئی تو تہران کو خالی کرانا پڑ سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے اتنی بڑی منتقلی کے طریقۂ کار پر کوئی تفصیل نہیں دی۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
تہران، جو البرز پہاڑی سلسلے کے جنوبی دامن میں واقع ہے، عام طور پر گرمیوں میں خشک موسم اور خزاں و سرما میں بارش اور برفباری کا سامنا کرتا ہے۔ مگر اس سال صورتِ حال غیر معمولی حد تک سنگین ہے۔
ذخائر خطرناک حد تک کم
تہران کے شہری روزانہ تقریباً 30 لاکھ مکعب میٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، کرج دریا پر قائم امیر کبیر ڈیم، جو دارالحکومت کے پانچ بڑے ذخائر میں سے ایک ہے، تقریباً خشک ہو چکا ہے۔ تہران واٹر کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل بہزاد پارسا کے مطابق ڈیم میں اس وقت صرف 14 ملین مکعب لیٹر پانی موجود ہے، جو بمشکل دو ہفتوں کی فراہمی کے لیے کافی ہے۔
گزشتہ سال اسی مدت میں ڈیم میں 86 ملین مکعب میٹر پانی موجود تھا۔ سرکاری ٹی وی نے ہفتے کے روز اصفہان اور تبریز کے ڈیموں کی تصاویر بھی نشر کیں، جن میں پانی کی سطح پچھلے برسوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم دیکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: ملک میں خشک سالی کے خدشات: ’چنے کی تقریباً آدھی فصل کو نقصان پہنچ چکا ہے‘
مشہد کے نائب گورنر حسن حسینی نے بھی جمعرات کو تصدیق کی کہ شہر میں رات کے اوقات میں پانی کی بندش پر غور کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں بھی شدید گرمی اور بجلی کے بحران کے باعث تہران میں 2 عوامی تعطیلات دی گئی تھیں تاکہ پانی اور توانائی کی بچت کی جا سکے۔














