قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے اصرار پر آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ شامل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں عدالتوں نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلوں کو عدالتی فیصلے کے ذریعے ختم کیا، اور آئینی عدالت کے قیام کے لیے اتحادی جماعتوں سے رہنمائی لی گئی۔ میثاق جمہوریت میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا تعین کیا گیا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی نمائندگی دی گئی ہے، اور سوموٹو نوٹس نے جس طرح جمہوری پارلیمانی نظام کو سبوتاژ کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی سینیٹ سے منظوری کا آنکھوں دیکھا حال
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کیا جا سکتا تھا، مگر اس کو چیلنج کیا گیا۔ اب ترمیم کے ذریعے یہ تمام اختیارات سپریم جوڈیشل کونسل کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
مزید برآں، دیوانی، فوجداری، کارپوریٹ اور وراثت کے مقدمات سپریم کورٹ سنے گی، جبکہ آئینی مقدمات صرف آئینی عدالت ہی سن سکے گی۔
آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کا اعزاز اور آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت نے آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا اور اس کے بعد انہیں آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرمی ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، جبکہ صدر مملکت کا عہدہ آئینی نوعیت کا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں استثنیٰ حاصل رہے گا۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ، پارلیمنٹیرینز کیا کہتے ہیں؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹ میں اس معاملے پر وسیع اور تفصیلی بحث ہوئی اور وہ چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر قومی اسمبلی میں بھی کھل کر بحث ہونی چاہیے۔
انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ اسی تحمل اور توجہ کے ساتھ اپنی رائے دیں جس طرح انہوں نے سینیٹ میں ان کی بات سنی۔














