سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے والے جمیعت علما اسلام کے سینیٹر احمد خان نے اگر چند روز میں استعفیٰ دیدیا تو ٹھیک ہے ورنہ ان کے خلاف آرٹیکل 63 کے تحت کارروائی شروع کردی جائے گی۔
آے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ان کی جماعت کے سینیٹر کو ہمنوا بنانے پر مولانا فضل الرحمان کی واپسی پر یقیناً گلہ کریں گے۔
27ویں ترمیم کی حمایت میں جے یو آئی کے سینیٹر کی ووٹنگ پر سربراہ مولانا فضل الرحمان کے فوری رد عمل کا بتاتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوری طور پر مذکورہ سینیٹر کو نوٹس دے کر فارغ کرنے کا کہنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی نے 27ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے سینیٹر کو پارٹی سے نکال دیا
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ہر دو طرف واضح کردیا گیا تھا کہ وہ ہمارے افراد پر ہاتھ نہ ماریں لیکن اس کے باوجود یہ کیا گیا۔ ’میں تو گلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔۔۔ جو گلہ کرنیوالے ہیں وہ یقیناً کریں گے اور شاید بات گلے سے آگے بھی جاسکتی ہے۔‘
کیا 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں جے یو آئی کے سینیٹر کی شمولیت سے حکومت سے دوری بڑھ گئی ہے؟ کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم پر ان کے ساتھ معاہدہ تھا جو ریورس ہونے کے بعد معاملات بگڑنا شروع ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں:پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے درمیان آئینی ترمیم پر 100 فیصد اتفاق ہو چکا ہے، بلاول بھٹو
’اب جو کچھ ہمارے بندے کے ساتھ ہوا ہے اس کے بعد اب ان کے پاس ایسا جواز نہیں رہتا کہ مولانا کے پاس تشریف لائیں۔۔۔یقیناً انہیں کسی تعاون کی امید نہیں رکھنی چاہیے ورنہ تو یہ تاثر جائے گا کہ ہم ملے ہوئے تھے اور اپنا بندہ خود دیا تھا۔‘
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ جو کام بھٹو صاحب نہ کرسکے یا ان کی سمجھ میں نہیں آئی وہ آج کی پیپلز پارٹی نے کردیا۔
27ویں ترمیم پر بحث میں حصہ نہ لینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ترمیمی مسودے کو پوری پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھنا پڑتا ہے، انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں عجلت اور مسودے سے آگاہی نہ ہونے کا بھی گلہ کیا۔














