قومی اسمبلی سے بل پاس کرانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

بدھ 12 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس شروع ہوچکا ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اکثریت ہونے کی بنا پر حکومت یہ ترمیم آج منظور کروا لے گی، واضح رہے کہ سینیٹ سے یہ ترمیم 2 روز قبل منظور کرلی گئی تھی جس میں حمایت کے لیے 64 ارکان نے ووٹ دیے تھے۔

پاکستان میں ترامیم کی منظوری کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور کسی بھی بل کی منظوری کے لیے کیا طریقہ کار ہوتا ہے، آئیے اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔

ملک میں کی جانے والی قانون سازی عمومی طور پر پارلیمنٹ میں بل کے ذریعے کی جاتی ہے، بل یا تو پرائیویٹ ممبر یا حکومت کی جانب سے سینیٹ یا قومی اسمبلی میں پیش کیے جاتے ہیں۔

پرائیویٹ ممبر کی جانب سے بل کا مسودہ تیار کرکے اسمبلی اجلاس کے دوران پرائیویٹ ممبر کے دن کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے اور اس بل پر ایوان میں رائے لی جاتی ہے اور پھر غور و فکر یا ترمیم کے لیے اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری: حکومت اب کسی تعاون کی امید نہ رکھے، رہنما جے یو آئی کامران مرتضیٰ

حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل کا مسودہ پہلے متعلقہ وزارت تیار کرتی ہے، اس بل کو پہلے وفاقی کابینہ سے منظور کرایا جاتا ہے جس کے بعد اسے پارلیمنٹ  بھیج دیا جاتا ہے، سینیٹرز کا بل پہلے سینیٹ میں جبکہ اراکین قومی اسمبلی کا بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر بعد میں منظوری کے بعد دوسرے ایوان میں منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

ایوان میں پیش کیے جانے والے بل پر اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ اراکین کی رائے لیتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ کرتے ہیں بل پاس کرنا ہے یا مزید غور و فکر کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ قائمہ کمیٹی میں متعلقہ بل پیش کرنے والے ممبر اور کمیٹی ارکان اس بل پر تفصیلی بحث کرتے ہیں اس میں ترامیم کرتے ہیں جس کے بعد کمیٹی ترامیم کو شامل کر کے مزدوری کے لیے دوبارہ ایوان میں بھیج دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: حکومتی تیاریاں مکمل، 27ویں آئینی ترمیم آج قومی اسمبلی سے منظور ہونے کا امکان

ایوان میں پرائیویٹ ممبر کا بل ممبر خود پیش کرتا ہے اور حکومتی بل وزیر قانون پیش کرتے ہیں، بل پیش کرتے وقت بتایا جاتا ہے کہ یہ بل کس سے متعلق ہے اور اس کے اہم نکات کیا ہیں، بل اگر قائمہ کمیٹی سے منظور ہو کر آئے تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس بل پر کمیٹی کی کیا رائے تھی اور کمیٹی کی کون سی اہم تجاویز کو شامل کیا گیا ہے۔

قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے کے بعد بل دوبارہ متعلقہ ایوان قومی اسمبلی یا سینٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے اور پھر سادہ اکثریت سے یا ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت سے یہ بل منظور کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے دوسرے ایوان سے منظوری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

سینیٹ سے منظور کیا گیا بل قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا بل سینیٹ کو بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس منظور کیے گئے بل میں مزید کسی ترمیم کے لیے اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی بھیجنا ہے یا اسی طرح منظور کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنا غیر آئینی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر

اگر کوئی بل کسی ایک ایوان سے منظور ہو جائے اور دوسرے ایوان سے منظور نہ ہو سکے تو ایسے بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج دیا جاتا ہے اور پھر مشترکہ اجلاس میں بل پر ووٹنگ کرائی جاتی ہے اور اگر اکثریت منظور کر لے تو یہ بل منظور ہو جاتا ہے وگرنہ یہ بل ڈراپ ہو جاتا ہے۔

قومی اسمبلی یا سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعد اسے سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ وزارت پارلیمانی امور کو ارسال کر دیتے ہیں جو اس پر دستخط کے لیے اسے وزیراعظم افس بھیج دیتے ہیں وزیراعظم کے دستخط کے بعد اس بل کو حتمی منظوری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کیا فارم 47 کی پیداوار حکومت آئینی ترمیم کا اختیار رکھتی ہے؟ لطیف کھوسہ

ایوان صدر میں اس بل کو سیکشن افیسر وصول کرتے ہیں اور اس بل کی فائل پر مختصرا متن لے کر بل کی کاپی اسسٹنٹ سیکرٹری کو بھیج دیتے ہیں جو کہ اپنی رائے اسی فائل پر لکھ کر بل صدر کے سیکرٹری کو بھیجتے ہیں اور پھر بل صدر تک پہنچایا جاتا ہے۔

 آئین پاکستان کی شق 75 کے تحت وزیراعظم آفس سے جب بھی کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو 10 دنوں میں صدر نے اس بل پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ شق75(1) کے تحت صدر مملکت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس بل پر 10 دنوں میں دستخط کرے یا دوبارہ غور کے لئے پارلیمنٹ بھیج دے۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی کون سی قوم پرست سیاسی جماعتیں 27ویں آئینی ترمیم کی مخالف ہیں؟

آئین کے آرٹیکل 75(2) کے تحت اگر پارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس میں بل منظور کر لیا جائے اور صدر 10 دن کے اندر اس پر دستخط نہ کریں تو آئین کے آرٹیکل 75(3) کے تحت کوئی بھی بل خود ہی قانون بن جاتا ہے اور آئین کے آرٹیکل75(4) کے مطابق اس طرح سے منظور کیا گیا کوئی بھی بل یا ترمیم کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

خواجہ آصف، عطا تارڑ اور محسن نقوی کا دورہ پاکستان جاری رکھنے کے فیصلے پر سری لنکن ٹیم سے اظہار تشکر

افغانستان کی جانب سے تجارتی بندش کی بات کسی نعمت سے کم نہیں، خواجہ آصف

افغانستان خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہی لانگ رینج حملے کرسکتا ہے، طلال چوہدری

ویڈیو

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ