راجیو گاندھی: جن کی زندگی حادثوں سے عبارت رہی

اتوار 21 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

32  برس پہلے آج ہی کے دن قتل ہونے والے راجیو گاندھی کی زندگی میں حادثوں کا بڑا عمل دخل رہا۔ ان کی ناگہانی موت بھی ایک حادثہ تھی۔ راجیو سیاستدان بھی حادثاتی تھے وگرنہ اندرا گاندھی تو اپنا جانشین راجیو کے بھائی سنجے کو چن چکی تھیں مگر سنجے کی طیارہ حادثے میں موت راجیو کو سیاسی منظرنامے پر لانے کا باعث بن گئی۔اسی طرح اندرا گاندھی کی ہلاکت انہیں حادثاتی طور پر حکومت میں لے آئی۔

موت کے بعد بھی خبروں میں

راجیو اپنی زندگی میں تو خبروں میں رہتے ہی تھے مگر اپنی موت کے بعد بھی اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔ نریندر مودی جب الیکشن کے لیے کمر کستے ہیں تو اکثر اپنی انتخابی تقریروں میں راجیو گاندھی کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ مودی جب دیش بھگتی کا درس دیتے ہیں تو راجیو کو بھارتی نیوی کے جہاز کو اپنی ذاتی تفریح کے لیے استعمال کرنے کا طعنہ دینا نہیں بھولتے۔ مودی یوں ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں ایک تو راجیو پر تنقید اور دوسرا کانگریس کو ملک سلامتی کے لیے قابل اعتبار نہ ہونے کا تاثر۔

پردھان منتری کا ہُما

راجیو محض 40 سال کے تھے جب پردھان منتری کا ہُما ان کے سر پر بیٹھا یوں وہ اپنے وقت کے دنیا کے کم عمر ترین وزرائے اعظم کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ ناتجربہ کاری اور ناپختہ کاری ان کے آڑے آئی مگر اس سے زیادہ عالمی منظرنامہ جو سوویت انہدام کے ممکنہ پیش منظر میں نئی کروٹ بدل رہا تھا، نے راجیو کی سیاست اور خارجہ پالیسی کو بہت حد تک دھندلا دیا۔

اندرا گاندھی تو اپنا جانشین راجیو کے بھائی سنجے کو چن چکی تھیں۔

نانا نہرو کی پالیسی

بھارت چوں کہ سوویت یونین کا قریبی حلیف تھا اور بھارت کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ بھی روایتی طور پر سوویت یونین کی طرف زیادہ رہا تھا، بالخصوص اندرا گاندھی کے دور میں دوستی کے معاہدے قابل ذکر ہیں، تاہم اب امریکا دنیا کی تنہا عالمی طاقت بننے کے قریب تھا، سو راجیو کی خارجہ پالیسی اپنے نانا نہرو کی پالیسی کے تسلسل میں مثالیت پسندی کی طرف زیادہ مائل رہی۔

استعماریت پر تنقید

راجیو عالمی استعماریت پر تنقید بھی کرتے، نسلی مساوات کی ترغیب کرتے اور نیوکلائی عدم پھیلاؤ پر بھی زور دیتے۔راجیو تقریروں کی حد تک اس بات پر زور دیتے کہ بھارت کو غربت، عدم مساوات اور نوآبادیاتی ذہنیت سے چھٹکارا پانا ہوگا تا کہ بھارت صحیح معنوں میں 21ویں صدی میں داخل ہو سکے۔

بھارتی سیاست میں بھونچال

راجیو کو اندرونی محاذ پر بھی بیشتر امتحانوں کا سامنا رہا۔ بھارت کی سیاست جو کئی دہائیوں سے کانگریس کی مُٹھی میں تھی، نے اچانک سے نیا تغیر لے لیا۔ بھارت کے اندر ہندو قومیت پسندی کا تصور نے نہ صرف پروان چڑھنا شروع کیا بلکہ کانگریس کے اندر سے بھی جنتا دَل کے نام سے نیا دھڑا سامنے آگیا۔ واجپائی اور ایڈوانی کی جوڑی نے بی جے پی کی سیاست کو بھی ازسرنو استوار کرنا شروع کر دیا اور بھارتی سیاست بھونچال کا شکار ہو گئی۔ انتخابی طور پر بھی گٹھ بندن سرکار ایک نئی حقیقت بن کر راجیو کو درپیش تھی۔

راجیو کی خارجہ پالیسی اپنے نانا نہرو کی پالیسی کے تسلسل میں مثالیت پسندی کی طرف زیادہ مائل رہی۔

بھارتی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ

راجیو کی شخصیت اپنے نانا اور والدہ کے برعکس تھی وہ کرشماتی شخصیت کے حامل یا بہت متاثر کن شخصیت کے حامل بھی نہیں تھے۔ لہٰذا ان کی سیاست کو بے شمار چیلینجز درپیش رہے۔  بھی ایک حقیقت ہے کی راجیو کو 1985ء کے انتخابات میں بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملا اور کانگریس نے 542 کے ایوان میں 411 سیٹیں جیتیں۔ اس سے راجیو کا قد کاٹھ بہت بڑھا گیا مگر وہ درپیش مسائل کا ادراک اور تدارک بہتر طریقے سے نہیں کر سکے۔

راجیو کی ناکامی

راجیو ایک فعال حکومت کرنے میں ناکام رہے اور ان کی پالیسیاں، حکمت عملی اور ردعمل تذبذب کا شکار رہے۔ یہی وجہ تھی کہ الیکشن اتنے بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کے بعد بھی راجیو 1989ء کے الیکشن میں کانگریس کو نہ جتوا سکے۔

راجیو اور سکھ

گولڈن ٹیمپل کے بعد راجیو کو ایک نئی حقیقت کا سامنا تھا۔ سکھ شورش اور غم و غصہ اپنی انتہا کو تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اندرا کی ناگہانی موت کے بعد سکھوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ راجیو لانگوال معاہدے سے بھی پھر گئے اور سکھوں کو قتل اور غارت گری کا سامنا رہا۔ راجیو اسے محض قانون امن عامہ کا مسئلہ سمجھ کر ڈیل کرتے رہے اور یوں کانگریس پنجاب پر سے اپنی گرفت کھو بیٹھی۔

راجیو کو اندرونی محاذ پر بھی بیشتر امتحانوں کا سامنا رہا۔

شاہ بانو کیس

راجیو مسلم ووٹ کو کسی بھی صورت ہاتھ سے کھونے کو تیار نہیں تھے اور ایسا ہی شاہ بانو کیس میں ہوا جب  ایک مذہبی اور انسانی حقوق کے معاملے کو راجیو نے اپنی سیاست اور مسلم ووٹ کے لیے استعمال کیا۔

راجیو عدالت کے فیصلے کو لوک سبھا میں لے گئے تا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ قائم رہے۔ شاہ بانو اندور کی رہائشی ایک 62 سالہ خاتون تھیں جو طلاق کے بعد اپنے نان و نفقے کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے سوالی تھیں۔ کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ بھی سنا دیا تھا مگر راجیو آڑے آ گئے۔

راجیو اور رامائن

راجیو ہی کے دور میں رامائن کی ڈرامائی تشکیل ہوئی اور اسے دور درشن پہ دکھایا گیا۔ راجیو کے ناقد اس قدم کو بھی مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے برابر گردانتے ہیں۔

سب سے بڑی جنگی مشقیں ’براس ٹیک‘

ایسا نہیں ہے کہ راجیو مکمل مثالیت پسند تھے۔ پاکستان کے بارڈر پر سب سے بڑی جنگی مشقیں براس ٹیک راجیو کے دور میں ہوئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بدامنی اور پُر تشدد شورش کا آغاز بھی راجیو کے وقت میں ہوا۔ راجیو نے مالدیپ میں حکومت کے انہدام کو ریورس کیا۔ سری لنکا میں فوجی دستے بھی بھیجے جن سے تامل ٹایئگرز سے کھلم کھلا دشمنی کا آغاز ہوا۔

اندرا گاندھی کی ہلاکت انہیں حادثاتی طور پر حکومت میں لے آئی۔

راجیو پر الزامات

راجیو پر الزامات کی بھی بھرمار رہی جن میں سانحہ بھوپال اور بوفرس اسکینڈل نمایاں رہے۔ ’ بوفرس ‘ بھارت اور سویڈن کے مابین اسلحے کا معاہدہ تھا جس نے راجیو کی شہرت کو داغدار کر دیا۔ راجیو سوئس  بینکس میں پیسے رکھنے کے الزامات کی زد میں بھی آئے۔ روس کی ’کے جی بی ایجنسی‘ سے رشوت لینے کا الزام بھی راجیو کے سر لگا۔

الغرض حادثاتی سیاست دان 1991ء میں اس وقت ایک حادثے کی نذر ہو گیا جب ایک خودکش بم دھماکے میں راجیو کی موت واقع ہوگئی۔ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کی راجیو بھارت کی سیاست کا ایک اہم کردار ہیں جو  خاص طور پر بی جے پی کی تنقید کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں۔

 

(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں خارجہ پالیسی اور بھارت کی سیاست پڑھاتے ہیں)

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp