داور کو نوکری شروع کیے کچھ مہینے ہوئے تھے، آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے ایک دن وہ ملتان سے پنڈی پہنچا۔ دوست کے ساتھ ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ وہ اس دن کراچی گیا ہوا تھا اپنے گھر، سب کچھ ٹھیک اور معمول کے مطابق تھا، جیسے ہی داور اپنے بستر پر ذرا سستانے لیٹا تو اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کا دل ڈوب رہا ہے۔ سوچا ابھی گھر سے آیا ہوں تو شاید ہوم سک ہو رہا ہوں۔ مگر یہ حالت بڑھتی گئی اور شدت اختیار کر گئی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا۔ اس کا دھاڑیں مار مار کر رونے کو جی چاہنے لگا۔
شدید گھبراہٹ کے عالم میں گھر فون کیا۔ امی ابو اور بھائی نے تسلی دی اور اسے کچھ بہتر محسوس ہوا۔ کچھ دیر بعد بھائی کا الگ سے فون آیا۔ اسے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ داور کسی مخصوص دوائی کا عادی بھی نہیں تھا کہ اگر وہ نہ کھائی جائے تو طبیعت کے بگڑنے کا ڈر ہو۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو فون کیا۔ اس نے جھٹ سے سارا حساب لگا لیا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ اس نے کہا داور، تیرے اوپر کسی نے جادو کر دیا ہے۔
اسے مکمل یقین تو نہ آیا دوست کی بات پر کیوں کہ اس کے خیال سے وہ ایک بے ضرر انسان تھا اور اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ کوئی اس پر جادو کرے گا۔ اس کا دوست کہنے لگا یہی تو مسلہ ہے، لوگوں کو دوسروں سے حسد ہی اتنا ہوتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ان کا نقصان کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے پکا وعدہ کیا کہ تو دوبارہ ملتان آئے گا تو شکیل بھائی کی طرف چلیں گے۔ شکیل بھائی سے وہ دونوں پہلے بھی مل چکے تھے۔ یہ گھبراہٹ کے دورے داور کو مسلسل پڑنے لگے اور وہ اس سے سخت زچ ہونے لگا۔
ایسی کاروائیوں پر اسے کوئی خاص یقین تو نہیں تھا لیکن اس سے پہلے فروری 2005 میں وہ دونوں اندرون شہر میں ایک بابا کے پاس گئے تھے۔ داور کی نوکری ابھی نہیں لگی تھی اور وہ پڑھ رہا تھا لیکن انٹرویو دے رکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کا روغن کہیں کہیں دیواروں سے اکھڑا ہوا تھا۔ اندر ایسی بساند تھی جیسے کبھی یہ کمرہ گودام رہا ہو۔ تین طرف لمبے لمبے بینچ رکھے تھے جن پر عورتیں بیٹھی تھیں جو تعویذ لینے کے لیئے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔
سامنے ایک اندھا بوڑھا کرسی پر بیٹھا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کے دو چھکے تھے۔ جیسے لڈو میں ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ لڈو جیسے 4 چھکے جوڑ کر ایک چھکا بنایا گیا تھا۔ وہ اپنی باری پر اس کے سامنے جا کر بیٹھا۔ بابا نے دونوں چھکے اسے دے دیے اور خود اپنی ہتھیلی اس کے آگے کر دی کہ اس پر وہ پھینکے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس نے داور کے پھینکے ہوئے چھکوں کو اپنی انگلیوں سے محسوس کیا اور کاغذ پر کچھ آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر کہنے لگا سوال کیا ہے۔ داور بولا نوکری کب لگے گی۔ کہنے لگا 2 مہینے بعد۔ وہ ہدیے والے ڈبے میں پیسے ڈال کر چپ کر کے اٹھ کر باہر چلا آیا۔ واپسی پر دونوں دوستوں نے بابے کا خوب مذاق اڑایا اور گھر آ گئے۔ ٹھیک دو مہینے بعد داور کو تربیتی کورس کے لیئے کراچی بلانے کا لیٹر موصول ہو گیا۔
خیر جب وہ اگلے مہینے دوبارہ ملتان گیا تو وہ دونوں شکیل بھائی کے پاس گئے۔ انھوں نے ساری بات سن کر کہا کہ کل بتاؤں گا۔ اگلے دن داور سے کہنے لگے کہ آپ پر واقعی عمل کروایا ہے کسی نے۔ اس نے پوچھا پھر تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کون ہے، مجھے بھی بتائیں۔ کہنے لگے اس کی اجازت نہیں ہوتی کیوں کہ پھر لڑائی جھگڑے اور قتل تک ہو جاتے ہیں۔
حل پوچھا تو انھوں نے کچھ چیزیں بتائیں، سوا تین کلو گوشت، سوا تین کلو باجرہ اور سوا تین کلو چینی۔ چاند کی پہلی 15 تاریخوں کے بیچ انھوں نے ان لوازمات کے ساتھ “پڑھائی” کر کے داور کو ایک تعویذ گلے میں ڈالنے کے لیے دیا۔
وہ تعویذ اس کے گلے میں لٹکتا رہا اور اس کی طبعیت ٹھیک ہوتی گئی۔ وہ نارمل ہو گیا جیسے پہلے تھا۔ داور آج تک نہیں سمجھ سکا کہ کیا اس کے اوپر واقعی کوئی عمل کیا گیا تھا یا یہ ایک نفسیاتی حربہ تھا۔ چوں کہ وہ ساری صورت حال تعویذ لینے سے پہلے ان کو بتا چکا تھا جس کے ساتھ توہمات اور ابہام سے بھرے معاشرے کا باسی ہونے کے ناطے اس کے لاشعور میں یہ بات ثبت تھی کہ واقعی ایسا ہو سکتا ہے، تو اسے یقین تھا کہ وہ ان کے اس “نورانی عمل” کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔
داور نے اس کے بعد کچھ اور معاملات میں شکیل بھائی کے نورانی عمل کو ٹیسٹ کیا۔ کامیابی کا تناسب 50 فیصد رہا۔ ایک دوست کی نوکری نہیں لگ رہی تھی۔ وہ کافی عرصے سے پریشان تھا۔ شکیل بھائی کے عمل سے اس کو ہر جگہ سے کال آنے لگی جہاں جہاں اس نے سی وی دیا ہوا تھا۔ آخر ایک اچھی جگہ اس کی نوکری لگ گئی۔ ایک خاتون کا رشتہ کہیں نہیں ہو رہا تھا اور عمر بڑھے جا رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ ان کا رشتہ کسی نے “باندھ” دیا ہے۔
اس بار نورانی عمل کے لیئے گزشتہ لوازمات کے ساتھ کچھ گز کالا کپڑا اور فوری نتائج کے لیئے کستوری بھی مانگی گئی۔ چاند کی آخری 15 تاریخوں کے درمیان عمل سر انجام دیا گیا۔ وہ خاتون آج تک اکیلی زندگی گزار رہی ہیں۔ اسی طرح کے کچھ اور معاملات میں کامیابی بھی ہوئی لیکن اکثر تمام عمل ناکام بھی رہا۔
کیا یہ سب ہماری ذہنی اختراع ہے یا اس کالے اور نورانی علم/ عمل کی کوئی توجیح ہے؟ کیا ہم سب پلاسیبو کا شکار ہیں؟ داور تو کب سے سوچ رہا ہے، اب آپ بھی سوچیں۔