آزادی رائے کو بھونکنے دو

جمعہ 21 نومبر 2025
author image

آصف محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سلیم احمد نے 80 کی دہائی میں لکھا تھا: آزادی رائے کو بھونکنے دو۔

سوچتا ہوں سلیم احمد زندہ ہوتے اور آزادی رائے کے لچھن دیکھتے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا۔  یقیناً وہ ہاتھ جوڑ دیتے اور  التجا کرتے: کوئی ہے جو اسے تھوڑی دیر چُپ کروا دے۔

خبر اب خبر نہیں رہی، یہ خواہش بن چکی ہے۔ تجزیہ اب عصبیت کا دیوان ہے۔ سر شام ٹاک شوز کا میلہ لگتا ہے پھر  کسی کی دستار سلامت نہیں رہتی۔ سطحی موضوعات اور پست انداز گفتگو۔ ہیجان اور ہذیان۔ گاہے پطرس بخاری کے مضامین یاد آ جاتے ہیں اور آدمی حیران ہوتا ہے کہ جنہیں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے وہ بھی اب سینیئر تجزیہ کار کہلاتے ہیں۔

سماج میں صحت سے تعلیم تک کتنے ہی سنجیدہ موضوعات توجہ کے طالب ہیں لیکن میڈیا کے لیے صرف سیاست ہی حالات حاضرہ ہیں اور سیاست میں بھی اس کی چاند ماری کی کل استعداد صرف ’اِ س نے یہ کہا اور اُس نے وہ کہا‘ تک محدود ہے۔

الگوردم کے ڈنڈے سے ہانکے جانے والے سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ سنجیدہ اور تعمیری گفتگو کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب صرف ویوز چاہییں۔ چنانچہ معتبر اخبارات کے سوشل میڈیا پیجز دیکھ لیے جائیں تو تھم نیل دیکھ کر کراہت آنے لگتی ہے۔ جھوٹ، مبالغے اور دھوکے پر مبنی ان تھم نیلز کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ بس کسی طرح لوگ خبر کو کلک کریں۔ چاہے اخبار کا عشروں کا اعتبار جاتا رہے اس کی اب کوئی پرواہ نہیں۔

پہلے پہل بد تمیزی کی گئی تب لوگ متوجہ ہوئے، پھر یہ معمول بن گیا۔ پھر لکھنے اور بولنے والوں نے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے مزید بد تمیزی کی،  گالم گلوچ شروع ہو گئی، منہ سے جھاگ اڑنے لگی، ہاتھا پائی ہونا شروع ہو گئی، جگت بازی علم و حکمت قرار پائی۔ دلاور اب وہ ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت سے یکساں بے نیاز ہو، جو اچھی ڈگڈگی بجا کر مجمع لگا لے۔ کوئی ہے جو سوچے کہ اس سلسلے کا انجام کیا ہو گا؟

 دیکھنے اور پڑھنے والے کو ہر دم ’مزید‘ چاہیے ہوتا ہے۔ مزید کے اس مطالبے میں صحافت کہاں تک گرے گی؟ گالیاں دے لیں، پگڑیاں اچھال لیں، مہمان لڑا لیے، اب ریٹنگ کے لیے کیا ناظرین سے یہ کہا جائے گا کہ پروگرام کے آخر میں محترم اینکر صاحب اپنے کیمرا مین کے ساتھ مل کر بیلے ڈانس کریں گے اس لیے ہمارے ساتھ رہیے گا۔

یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہشتگردی ہو تو تجزیہ کار دہشتگردوں کی ٹائمنگ کی تعریف کرتے ہیں۔ یہاں سر شام اپنی ہی ریاست کو گالیاں بکی جاتی ہیں۔ یہاں صبح سے شام تک اپنے ہی ملک پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔ ہیجان اور نفرت اور گالم گلوچ حکمت عملی کے طور پر اختیار کر لیے گئے ہیں۔ یہی حالت رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سماج شعوری طور پر طے کر لے کہ اس میڈیا کے ہوتے ہوئے ہیجان اور عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ وقت اب زیادہ دور نہیں۔

اس پر بے نیازی یہ کہ ناز و ادا سے ارشاد ہوتا ہے کہ ہم صحافیوں کو آئین اور قانون کے مطابق آزادی رائے دی جائے۔ انہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ جس روز قانون کے مطابق آزادی رائے کی حدود طے ہو گئیں، اس دن آدھا میڈیا اڈیالہ جیل میں چکی پیس رہا ہو گا۔

مثال کے طور پر پیمرا ریگولیشنز 2012  کو دیکھ لیجیے، اس کے باب پنجم میں سیکشن 18میں ٹاک شوز کے کچھ معیارات دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی روز پیمرا نے سچ مچ قانون کے مطابق ان معیارات کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہا تو ہمارے ٹاک شوز کا مستقبل کیا ہوگا جہاں معیار ہی ریٹنگ بن چکا ہے اور مہمانوں کو آپس میں لڑا کر میزبان سرخرو ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ کسی دن پیمرا نے ’پیمرا کانٹینٹ ریگولیشنز 2012‘ کو ان کی روح کے مطابق نافذ کر دیا تو آزادی رائے کس دیوار سے سر پھوڑے گی؟

 یہاں آزادی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ آدھی ادھوری ناقص اور جھوٹی خبر کی بنیاد پر حکومت کو  ذلیل کر دیا جائے اور اداروں کی کردار کشی کی جائے۔ ’قانون‘ کے تحت آزادی رائے مانگنے والے احباب کو شاید معلوم نہیں، اگر آپ اپنی تحریر یا تقریر سے حکومت کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا حکومت کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت آپ کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ تو کیا خیال ہے آزادی رائے کو ایک بار دفعہ 124 اے کے سارے ’حقوق‘  فراہم کر دیے جائیں۔

حریت فکر اور آزادی رائے کا پرچم  اب بعض مفرور اور نومولود چی گویروں کے ہاتھ میں ہے۔ جو ریاست کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو الگوردم اسے وائرل کر دیتا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف انہیں قانون کے مطابق آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔ انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے جناب امجد علی خان نے ایک پرائیویٹ بل (کرمنل لا امنڈمنٹ بل) کے ذریعے اس قماش کی آزادی رائے کے لیے 2 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی تھی، تو اگر  ان سب پر تعزیرات پاکستان کی اسی مجوزہ دفعہ 500 اے کا اطلاق  ہو گیا تو آزادی صحافت کا نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ بھی ہو سکتا ہے۔

ہمارے ہاں آزادی صحافت کے حوالے سے آئین پاکستان  کے آرٹیکل 19 کی بہت بات کی جاتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی رائے کا حق دیتا ہے وہیں وہ کچھ پابندیوں کی بھی بات کرتا ہے۔ یہ پابندیاں جس روز نافذ ہو گئیں، آزادی رائے کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

کوئی ریاست اس طرح کی آزادی رائے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان کی مسخ شدہ تصویرکشی، بالی وڈ کی فلم ’دھُرندھر‘ تنقید کی زد میں

فیصل آباد میں کیمیکل فیکٹری کا بوائلر پھٹنے سے دھماکا، 13 ہلاک، متعدد زخمی

1971 کی پاک بھارت جنگ: بہاریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم تاریخ کا سیاہ باب

بنگلہ دیش کا کولمبو سیکیورٹی کانکلیو میں علاقائی سلامتی کے عزم کا اعادہ

فلپائن میں سابق میئر ’ایلس گو‘ کو انسانی اسمگلنگ پر عمرقید

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟

انقلاب، ایران اور پاکستان