لاہور میں کتابوں کا جادو گھر

اتوار 23 نومبر 2025
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

محمد خالد اختر اور نیّر مسعود کے بچپن اور لڑکپن کی حسین ترین یاد دارالاشاعت پنجاب، لاہور کی کتب تھیں جن سے حاصل لطف عمر بھی ان کے ساتھ رہا۔

اس زمانے میں جب وہ اردو ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کر چکے تھے اور ایک دوسرے کے مداح تھے، ان کے درمیان مراسلت کا سلسلہ چل نکلا جس میں کتابوں کے تذکرے کو مرکزیت حاصل  تھی۔ ان کے خطوط کتاب دوست ادیب رفیق احمد نقش نے 2002 میں ’تحریر‘ میں شائع کر دیے تھے۔

ان خطوں میں دارالاشاعت پنجاب، لاہور اور اس کی کتابوں سے تعلق خاطر کے اظہار  پر ہم بات کریں گے اور خالد اختر اور نیّر مسعود کی طرح کے چند اور عشاق کا تذکرہ بھی رہے گا جنھوں نے اردو ادب میں جھنڈے گاڑنے سے پہلے دارالاشاعت پنجاب ،لاہور  کی کتابوں کا کورس لیا تھا۔

سب سے پہلے اس اشاعتی ادارے کی کتاب ’زلفی‘ کی بات کر لیتے ہیں۔ میں نے معروف ادیب محمد سلیم الرحمٰن سے اس کتاب کی تعریف سن رکھی  ہے، ان کے لیے بھی یہ دل پذیر تصنیف محمد خالد اختر اور نیّر مسعود کی طرح گزرے وقت کی خوبصورت یاد ہے۔

یہ کتاب رڈیارڈ کپلنگ کی ’جنگل بکس‘ کا اردو روپ ہے لیکن ترجمہ ایسا ہے کہ خالد اختر، عنایت اللہ کو مترجم نہیں بلکہ ’زلفی‘ کا مصنف گردانتے ہیں۔

ان کی دانست میں عنایت اللہ نے شکسپیئر کے ڈرامے بھی اردو میں منتقل کیے لیکن وہ پھیکے اور بے رنگ تھے اور وہ ان میں ’زلفی‘ جیسا اعجاز پیدا نہ کر سکے۔

اس ترجمے کی زبان مانجھنے کے سلسلے میں انہوں نے اسماعیل میرٹھی کا حوالہ دیا تو مجھے ’ تذکرۂ غوثیہ‘ کا خیال آیا جس کی غیر معمولی مقبولیت کا ایک بڑا سبب اسماعیل میرٹھی کا پُرتاثیر طرزِ تحریر ہے جنھوں نے سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی  کے ملفوظات و حالات، دلنشیں پیرایے میں رقم کرکے اسے نامی گرامی ادیبوں کی بھی پسندیدہ کتاب بنا دیا تھا جن میں انتظار حسین، اشفاق احمد، محمد خالد اختر اور محمد سلیم الرحمٰن شامل ہیں۔

خالد اختر کے ’زلفی‘ سے متعلق تاثرات کے جواب میں نیّر مسعود نے خط میں لکھا: ’زلفی کو یاد کرکے آپ نے ایک اور پرانا زخم تازہ کردیا۔ ’قصر صحرا‘، ’عمرو کی عیاریاں‘ اور ’الحمرا‘ کی طرح اس کتاب نے بھی اپنا عاشق بنا لیا تھا۔ اس کا ایک گیت نما ٹکڑا:

بھوکے ہیں یارو، کر لیں شکار

(اور اس کے بعد غالباً عف عف عف)

آج تک یاد ہے۔ بچپن کے اس زمانے کے بعد یہ کتاب دیکھنے کو نہیں ملی۔‘

خالد اختر اور نیّر مسعود کی خط کتابت میں دارالاشاعت کی کتاب ’قصرصحرا‘ از عظیم بیگ چغتائی پر بھی تبادلۂ خیال شامل  ہے۔ خالد اختر نے سات آٹھ برس کی عمر میں اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اس وقت وہ ٹائیفائڈ کے شدید حملے  کے بعد روبہ صحت تھے۔

ان کے بقول ’اگر کوئی اچھی پری مجھے اپنے بچپن کے کچھ وقفے لوٹا دے تو میں اسی وقفے میں جینا چاہوں گا جب میں یہ ہوش ربا ایڈونچرس کہانی سادھے ہوئے دم سے پڑھ رہا تھا۔‘

یہ کتاب تین حصوں میں شائع ہوئی تھی۔ پہلے دو حصوں سےخالد اختر نے حظ اٹھایا لیکن تیسرے حصے میں زیادہ لطف نہیں آیا۔ انڈیا میں ’قصر صحرا‘ شائع ہوئی تو نیّر مسعود نے  دانش محل لکھنؤ سے اس کے تینوں حصے خرید کر خالد اختر کو بھجوائے  لیکن حق بحقدار رسید کی نوبت نہیں آئی اور کتاب بیچ میں ہی کسی نے اچک لی۔

اس کے بعد اسے خالد اختر تک پہنچانے کا پکا انتظام کیا گیا۔ لکھنؤ میں اس کی دوسری اور تیسری جلد شان الحق حقی کے سپرد ہوئی جنھوں نے کراچی میں اسے خالد اختر کے گھر  پہنچایا۔ بعد ازاں پہلی جلد دستیاب ہونے پر اسے آصف فرخی کی معرفت بھیجا۔

نیّر مسعود نے یہ بتانا بھی ضروری خیال کیا: ‘یہ نیا ایڈیشن آپ دیکھیں گے کہ صاف ستھرا چھپا ہے لیکن دارالاشاعت پنجاب، لاہور کی بات ہی اور تھی۔’

خالد اختر نے خط میں لکھا: ’قصر صحرا کے دونوں حصے میں نے پڑھ ڈالے۔ ہاں، اس حیرت، اس دھک سے رہ جانے والے دل کے ساتھ نہیں جس سے اپنے لڑکپن میں پڑھے تھے۔ ویسے دونوں اِس عمر میں بھی دلچسپ لگے۔‘

نیّر صاحب کا تأثر ان سے مختلف تھا: ‘الحمرا کے برعکس قصر صحرا کو اب پڑھ کر مایوسی ہوئی۔ تار کا کردار کتنا دلچسپ معلوم ہوتا تھا، اب وہ بات نہیں محسوس ہوئی۔ حالاں کہ اب بھی پوری کتاب کا سب سے دلچسپ کردار وہی ہے۔‘

اب اس کہانی میں قرۃالعین حیدر کو بھی شامل کرتے ہیں جو بچپن میں دارالاشاعت کا نام اس طرح سے دہراتی تھیں:  دا۔ را۔ لا۔ شاعت۔ اس ادارے کے ہفتہ وار اخبار ’پھول‘ میں درج کتابوں کا نام مع قیمت پڑھنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔ اس گردان میں ’قصر صحرا‘ کے تینوں حصے شامل تھے۔

ان کا ڈرائیور نذیر اکثر کتابوں کی قیمتیں سنانے کی فرمائش کرتا تو وہ رواں ہو جاتیں۔ ان کے بقول ’چپ شہزادی تین آنے، راکھ بیگم تین آنے، بیگن سندری تین آنے کی صوتی کیفیت مجھے بہت اچھی لگتی اور قصر صحرا فسوں خیز۔ قصر صحرا سے آج بنو امیہ کے بنائے ہوئے جورڈن کے قلعے کا خیال آجائے گا مگر اس وقت تو یہ دو لفظ بالکل مسحور کن تھے۔ ٹیلی ویژن اور امریکن کومکس سے لبالب آج کی دنیا میں پروان چڑھنے والے بچے، نٹ کھٹ پانڈے تین آنہ، عقل مند انگشتانہ تین آنہ، چوہے بلی نامہ تین آنہ کی نعمت سے محروم ہیں۔‘

اردو داستانوں سے محمد سلیم الرحمٰن کی غیر معمولی دلچسپی اور ’طلسم ہوش ربا‘ سے ان کے عمر بھر کے پیمان وفا کا کھرا بھی دارالاشاعت پنجاب، لاہور تک جاتا ہے۔

سنہ 1940 میں علی گڑھ میں ان کے والد عقیل الرحمان ندوی نے دارالاشاعت سے بچوں کی کوئی تیس کتابیں منگوائی تھیں۔ ان میں ’عمرو عیار‘ نامی کتاب بھی تھی۔ اسے  حفیظ جالندھری نے آسان زبان میں لکھا تھا۔

پہلے حصے میں امیر حمزہ اور عمرو عیار کے کارنامے تھے۔ دوسرا حصہ ’طلسم ہوش ربا‘ کی جلد اوّل کے بعض واقعات پر مبنی تھا۔ یہ دونوں حصے سلیم صاحب کو بے حد پسند آئے۔  16 برس کی عمر تک طلسم ہوش ربا کی آٹھوں جلدوں تک رسائی ہو گئی۔

داستانوں سے یہ لگاوٹ ہی انہیں ہومر کی ’اودیسی‘ کے ترجمے کی طرف لے کر گئی جسے انہوں نے 22 برس کی عمر میں مکمل کر لیا تھا جو پھر ’جہاں گرد کی واپسی‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

علی گڑھ میں سلیم صاحب کے بچپن کے ہمجولی صلاح الدین محمود شوق مطالعہ میں ان کے رفیق تھے۔ پاکستان میں اس جوڑی کی کتابوں سے محبت اپنی مثال آپ ٹھہری۔ صلاح الدین محمود کی ذہنی نشوونما میں دارالاشاعت پنجاب کے ’پھول‘ اور  اس ادارے کی کتابوں کا ہاتھ تھا۔

1972 میں ماہنامہ کتاب، لاہور میں ‘نیا ادارہ’ اور ‘سویرا’ کے بانی نذیر احمد چودھری کے بارے میں اپنے مضمون ’درہ کوہ کا نگران — ایک یادداشت‘ میں انہوں نے لاہور سے اپنے رشتے کی صراحت کرتے ہوئے لکھا تھا: لاہور نے مجھ کو میرا پہلا تحفہ بھیجا اور ہمیشہ کے واسطے میرے لہو کو اپنی زبان کا منبع حاصل ہوا۔ لاہور سے پہلا تحفہ مجھ کو ایک ’پھول‘ کا آیا تھا۔ اس پھول کے ڈنٹھل پر ایک اسم اعظم سا کندہ تھا جب میں نے اپنی اکیل کی آہستگی میں اس اسم کو گرفت کیا تھا تو لکھا تھا: دارالاشاعت پنجاب ،لاہور۔ پھر میں جلد اس اسم کے ورد کا ماہر ہو گیا تھا۔‘

صلاح الدین محمود نے جسے اسم اعظم کہا اسی دارالاشاعت پنجاب، لاہور کو خالد اختر نے میجیکل نام قرار دیا تھا اور نیّر مسعود نے اس پر صاد کرتے ہوئے لکھا: ’اس نام کا جادو مجھ پر اس وقت بھی چلتا تھا جب میں اسے دارا،لاشاعت پڑھتا تھا۔‘

پھر وہ اپنے ایک تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ایک دفعہ یونیورسٹی لائبریری میں’شیخ حسن‘ کے عنوان سے عملیات پر ناولٹ کا ترجمہ نظر آیا جس کے مترجم مولوی ممتاز علی تھے اور ناشر دارالاشاعت پنجاب، لاہور۔ نیّر مسعود لکھتے ہیں: ’صرف ناشر کی وجہ سے کتاب اشو کرا لایا۔پڑھی تو وہی کیفیت پائی جو وہاں کی دوسری کتابوں میں پاتا تھا۔ معلوم نہیں یہ کیفیت کتاب کی تھی یا دارالاشاعت کے نام کی۔‘

دلچسپ بات ہے کہ ادارے کے نام کی ادائیگی قرۃالعین حیدر اور نیّر مسعود کی طرح معروف فکشن نگار حسن منظر بھی جوڑوں سے کرتے تھے۔ اس ادارے کے رسالے ’تہذیب نسواں‘ اور ’پھول‘ اور کتابوں سے ان کی واقفیت مراد آباد میں اسکول کے زمانے میں ہوئی تھی۔ ان کے بقول ’میں بچوں کی زبان سے ادارے کا نام کہہ کر سنتا تھا، ٹکڑے ٹکڑے: دا، را، لا، شا…  گا، ما، دھا، نی، سا، جیسے سرگم کے سر ہوں۔‘

سو باتوں کی ایک بات حسن منظر نے یہ کہی: ’پبلشنگ ادارہ کیا تھا پورے ملک کی تعلیم گاہ تھی۔‘

بچوں کو کتاب خریدنے کی ترغیب دینے کے دل چسپ طریقے کا حوالہ بھی حسن منظر کے مضمون ’کتابوں کے پجاری‘ میں آتا ہے: ’ہر مہینے چھپنے والی کتاب جس پر سنہری پیسے بنے ہوتے تھے اور ترغیب دلاتے تھے کہ بچہ پیسہ پیسہ روز جوڑے اور مہینے کے آخر میں ادارے کو بھیج دے تو اسے ہر ماہ نئی کتاب ملے گی… مثلاً مسخروں کی کہانیاں،ٹھگوں کی کہانیاں۔‘

دارالاشاعت پنجاب کی کہانی ’الحمرا کے افسانے‘ کے بنا  پوری نہیں ہوتی۔ یہ واشنگٹن ارونگ کی کتاب ’ٹیلز آف الحمرا‘ کا غلام عباس کے قلم سے آزاد ترجمہ تھا۔ یہ کتاب اردو کے بڑے نامی گرامی ادیبوں کو اپنے بچپن میں محبوب رہی۔ خالد اختر اور نیّر مسعود کے نامے بھی اس کے ذکر سے تہی نہیں۔

نیّر مسعود نے خالد اختر کو لکھا: ’بہت پہلے نقوش کے شخصیات نمبر میں شفیق الرحمٰن پر آپ کے  مضمون میں یہ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ آپ دونوں دارالاشاعت والی الحمرا کے عاشقوں میں ہیں ۔ میں تو بڑے اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ بچپن سے لے کر آج تک جو کچھ بھی پڑھا ہے اس میں اس الحمرا سے زیادہ کسی کتاب نے مجھ کو مسحور نہیں کیا۔‘

 نیّر مسعود کو ’قصر صحرا‘ نے تو پہلے جیسا مزہ نہ دیا لیکن ’الحمرا کے افسانے‘ سے وہ عشروں بعد بھی پہلے کی طرح لطف اندوز ہوئے۔ محمد سلیم الرحمٰن نے 75 سال بعد اسے پڑھ کر مجھے بتایا تھا کہ یہ انہیں بچپن  کی طرح  پرکشش لگی۔

خالد اختر کا دارالاشاعت پنجاب کے بارے میں بیان حلفی حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان خطوط کی دنیا سے باہر نکل کر ان کی کتاب ’ریت پر لکیریں‘ کی طرف بڑھنا ہو گا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اور شفیق الرحمٰن گھر والوں سے چوری چھپے دارالاشاعت پنجاب سے کتابیں منگواتے تھے اور ان کی وی پی چھڑانے کے لیے جوڑے ہوئے پیسے استعمال میں لاتے تھے۔ خالد اختر نے لکھا ہے:

’کیا ہم بادشاہوں کی طرح خوش نہ ہوتے تھے جب کتابوں کا بنڈل ہمارے قبضے میں ہوتا تھا! اور کس دھڑکن اور اضطراب سے ہم اس بنڈل کو کھولتے تھے، اور کیسی خوبصورت کتابیں وہ ہوتی تھیں! قصر صحرا، عمروعیار، جنوبی سمندر کی کہانی، الحمرا کی کہانیاں۔ میں نے ایسی کتابیں پھر نہیں پڑھیں اور نہ کبھی پڑھوں گا۔ وہ لڑکے خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنے لڑکپن میں انہیں پڑھا ہے۔ شفیق اکثر کہتا ہے کہ وہ جو کچھ ہے انہی کتابوں کی بدولت ہے۔ انہوں نے ہمیں اصل ادب کے حسن اور لطافت سے روشناس کیا اور ہمارے تخیل کو جلا دی۔‘

نیّرمسعود دارالاشاعت پنجاب کی کتابوں کے سحرسے کبھی نہیں نکل سکے۔ بچپن میں ان کتابوں تک ان کی رسائی کا ذریعہ لکھنؤ میں معروف فکشن نگار الطاف فاطمہ کا گھر تھا۔

ان کے بقول ’بچوں کی کتابیں مجھے پڑوس میں بہن الطاف فاطمہ صاحبہ کے یہاں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ شیشے لگی ہوئی ایک چھوٹی سی الماری میں دارالاشاعت  کی کتابیں اوربچوں کی دوسری کتابیں سلیقے سے سجی رہتی تھیں اور کبھی کبھی میرا پورا دن ان کتابوں کی سیرمیں نکل جاتا تھا۔‘

تقسیم کے بعد الطاف فاطمہ کے گھرانے نے پاکستان ہجرت کی ۔ ادھر لکھنؤ میں ان کا سامان نیلام ہوا تو اس میں کتابوں سے بھری الماری بھی تھی جس میں نیّر مسعود کی جان تھی۔

ان کے والد مسعود حسن رضوی ادیب  کا اصول تھا کہ وہ کسی عزیز یا واقف کار کا ایسا سامان نہیں خریدتے تھے جو انہیں مجبوراً فروخت کرنا پڑے۔

نیّر مسعود نے الماری خرید لینے کے لیے اپنی والدہ  کو وکیل کیا لیکن وہ شوہر کی عدالت میں یہ مقدمہ ہار گئیں۔ نیّر مسعود نے کتابوں کی الماری کی نیلامی کا یہ دل دوز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جو ان کے ذہن پر اتنا پختہ نقش تھا کہ 50 برس بعد خالد اختر کو دل کا حال یوں لکھا جیسے کل کی بات ہو۔ ان کی ناراضی دور کرنے کے لیے مسعود صاحب نے بیٹے کو مکتبہ جامعہ کی دکان سے بچوں کی بہت سی کتابیں دلوا دیں لیکن بقول نیّر مسعود ’کجا مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ،کجا دارالاشاعت پنجاب۔‘

صاحبو! یہ کہانی ناتمام ہے شاید البتہ یہ جاننے میں ہماری مدد ضرور کر سکتی ہے کہ ایک اشاعتی ادارہ چاہے تو  اپنے مرکز سے دور شہروں کے نوخیز ذہنوں کو شاداب کرکے انہیں بڑا ادب تخلیق کرنے کے لائق بنا سکتا ہے اور وہ سربلندی حاصل کرنے کے بعد اسے بہانے بہانے بڑی محبت اور حسرت  سے یاد کرتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp