قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد فہیم قریشی نے کہا ہے کہ ادارے نے گزشتہ 2 سال اور 7 ماہ میں ریکوری کی مد میں غیر معمولی پیشرفت کی ہے اور انویسٹی گیشن کے طریقۂ کار کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں قریباً 9.228 کھرب روپے براہِ راست اور بالواسطہ ریکور کیے گئے، جو گزشتہ 23 برسوں کی مجموعی ریکوری 883 ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد فہیم قریشی نے کہا کہ موجودہ چیئرمین جنرل نذیر احمد بٹ کے عہد سنبھالنے کے بعد نیب کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی۔ ادارے میں متعدد اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، جن میں ’پاکستان انٹی کرپشن اکیڈمی‘ کا قیام بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: شدید زلزلے کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی 15 روز کے لیے بند، طلبا کو ہالز خالی کرنے کا حکم
فہیم قریشی نے بتایا کہ جہاں نیب افسران کو منی لانڈرنگ ٹریسنگ، سائبر فراڈ اور جدید بین الاقوامی تحقیقاتی تکنیک کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیب کی کارروائیوں کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک ایٹ لارج کے کیسز میں متاثرین کو طلب کرنے کے بجائے بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم ان کے گھر تک پہنچائی جا رہی ہیں، جبکہ بڑے مقدمات میں قابلِ ذکر پیشرفت سامنے آئی ہے۔ ان میں ڈبل شاہ کیس میں 10 ارب روپے کی ریکوری اور 28 ہزار متاثرین میں رقوم کی واپسی شامل ہے۔
اسلام آباد کے ایک 2 دہائی پرانے ہاؤسنگ کیس میں سی ڈی اے کے تعاون سے 8 ہزار سے زائد پلاٹس الاٹ کیے گئے جن کی مالیت قریباً 70 ارب روپے ہے، جبکہ مختلف صوبوں میں سرکاری اراضی کی واگزاری بھی ریکارڈ سطح پر ہوئی ہے۔
فہیم قریشی نے کہا کہ ماضی میں کاروباری برادری، بیوروکریسی اور پارلیمنٹرینز کے درمیان نیب کے حوالے سے خوف پایا جاتا تھا۔ تاہم ادارے نے سہولت مراکز قائم کر کے اس تاثر کو کم کیا ہے۔ کرپٹو کرنسی، آن لائن دھوکا دہی اور عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کے باعث وائٹ کالر کرائم مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں:نیب اور این سی اے کا منی لانڈرنگ اور کرپشن کے خاتمے کے لیے تعاون بڑھانے پر اتفاق
بعض کیسز میں رقم پاکستان سے نکل کر سنگاپور اور پھر آف شور مقامات تک ٹریس ہوئی، جس کے باعث تحقیقات وقت لیتی ہیں۔
شکایات کے طریقۂ کار سے متعلق انہوں نے بتایا کہ نیب مخبروں اور شکایت کنندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتا، تاہم جعلی یا گمنام درخواستوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اب ہر شکایت کے ساتھ حلف نامہ اور شواہد جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
کرپشن فری پاکستان کے امکان سے متعلق سوال پر فہیم قریشی کا کہنا تھا کہ دستاویزی معیشت اور پالیسی سطح پر جاری اصلاحات امید دلاتی ہیں۔ ان کے مطابق نیب ہر کیس کے لیے واضح ٹائم لائنز رکھتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔













