پاکستان کی جانب سے 11 اکتوبر 2025 کو افغان سرحد کی بندش کے بعد وہ تمام راستے بند کر دیے گئے جو منشیات، غیرقانونی اسلحے، اسمگلنگ اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
طورخم گیٹ کی بندش نے افغان معیشت پر نمایاں اثرات چھوڑے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک ماہ کے دوران افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ چند ہفتوں کے دوران دیگر سرحدی راستوں کی بندش کے باعث مجموعی نقصان 200 ملین ڈالر سے بڑھ گیا۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی سرحد بند ہونے کے بعد طالبان حکومت بھارتی دہلیز پر، وزیر تجارت نئی دہلی پہنچ گئے
میڈیا رپورٹس کے مطابق 5000 سے زائد ٹرک مختلف مقامات پر رک گئے اور پاکستان کی منڈیوں تک پہنچنے کی امید میں رکھے گئے پھل و سبزیاں یا تو خراب ہوگئیں یا انہیں نہایت کم قیمت پر اندرونِ افغانستان بیچنا پڑا۔
سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا کہ افغانستان کی مجموعی تجارت کا تقریباً 70 سے 80 فیصد انحصار پاکستانی راستوں اور بندرگاہوں پر ہے۔ کراچی سے سامان چند ہی دنوں میں افغانستان پہنچ جاتا ہے، جبکہ ایران کے راستے یہ سفر تقریباً دگنا وقت لے سکتا ہے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ممالک سے آنے والے تجارتی مال کو افغان تاجروں تک پہنچنے میں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
دوسری جانب رپورٹس کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی رہی جس سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 3 کھرب 42 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ افغان ٹرانزٹ کے تحت ملک میں داخل ہونے والا تقریباً ایک کھرب روپے کا سامان دوبارہ پاکستان کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا تھا جو اضافی مالی خسارے کی بڑی وجہ تھا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہونے کا عام پاکستانی کی روزمرہ زندگی پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑا اور پاکستان کا بنیادی مقصد غیرقانونی تجارت کے طویل سلسلے کو روک کر قومی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔














