سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات میں ابراہم معاہدوں میں شمولیت کی امریکی پیشکش مسترد کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات، سرمایہ کاری ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا اعلان
سعودی گزٹ کے مطابق ولی عہد نے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی بھی اقدام فلسطینی ریاست کے قیام کی ایک قابلِ اعتبار، ناقابلِ واپسی اور وقت کے پابند منصوبے کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے اور انہوں نے ملاقات کے بعد یہ موقف عوامی طور پر بھی دہرایا۔
امریکی اہلکاروں کے مطابق، 18 نومبر کی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد سعودی اسرائیلی تعلقات میں پیش رفت کی توقع کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے معاونین نے ولی عہد کو پہلے سے آگاہ کیا تھا کہ ٹرمپ اس معاملے پر پیش رفت چاہتے ہیں۔
تاہم جب ٹرمپ نے ولی عہد پر زور دیا کہ سعودی عرب معاہدے میں شامل ہو جائے جو ان کی پہلی مدت کا اہم خارجہ پالیسی کارنامہ ہے تو بات چیت تناؤ کا شکار ہو گئی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی فریق مایوسی محسوس کر رہا تھا جبکہ ولی عہد نے اپنے موقف پر قائم رہے۔
مزید پڑھیے: امریکا نے سعودی عرب کو اپنا اہم غیر نیٹو اتحادی قرار دے دیا
محمد بن سلمان ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں، دروازہ کھلا ہے لیکن مسئلہ دو ریاستی حل ہے۔
ولی عہد نے ٹرمپ کو بتایا کہ سعودی عرب صرف تب ہی تعلقات معمول پر لانے کی طرف بڑھے گا جب اسرائیل ایک قابلِ اعتبار اور وقت کے پابند منصوبے کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تمام مشرق وسطیٰ کے ممالک ابراہم معاہدوں میں شامل ہوں لیکن ریاض کا موقف مستقل اور واضح ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا عالمی اعزاز، 2031 سے ’انٹوسائی‘ کی صدارت سنبھالے گا
عوامی بیان میں صدر ٹرمپ نے ولی عہد کو یقین دلایا کہ واشنگٹن سعودی عرب کو اسرائیل میں استعمال ہونے والے جدید ایف 35 لڑاکا طیارے فراہم کرے گا۔













