’ہماری کوئی اننگز جارحانہ نہیں بلکہ آئینی اور قانونی ہیں۔ کسی کو جارحانہ لگ رہی ہے اور کسی کو تلخ لیکن ہم اننگز قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر کھیلیں گے’۔
یہ الفاظ ہیں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کے جو گزشتہ روز پشاور میں میڈیا سے بات چیت کے دوران سیاسی صورتحال اور ممکنہ احتجاجی تحریک کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چشمہ رائٹ بینک کینال کو پی ایس ڈی پی فنڈنگ کے ذریعے جلد شروع کرایا جائے، سہیل آفریدی کا وزیراعظم کو خط
وفاق اور سیاسی حکمت عملی سے متعلق سوالات پر ان کے لہجے میں واضح تبدیلی دیکھی گئی۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کے سابقہ سخت انداز کے مقابلے میں اب لہجہ خاصا نرم اور ٹکراؤ کے بجائے قانونی اور سیاسی جدوجہد پر مبنی ہے۔
پارٹی رہنما اور سیاسی تجزیہ کار بھی سہیل آفریدی کے رویے، لہجے اور سیاسی مؤقف میں اس تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں — جو عام ورکرز کے لیے شاید حیران کن ہو، مگر پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے لیے زیادہ غیر متوقع نہیں۔
کیا سہیل آفریدی کے لہجے میں واقعی نرمی آئی ہے؟
سہیل آفریدی نے اپنا سیاسی سفر انصاف اسٹوڈنٹس ونگ سے شروع کیا تھا۔ وہ نہ صرف جذباتی مزاج کے تھے بلکہ خود کو احتجاجی سیاست کا چیمپیئن بھی سمجھتے تھے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ورکرز ان سے عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک کی امید رکھتے تھے۔ مگر منصب سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے سخت لہجے میں نمایاں نرمی آگئی ہے۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی اب وہ سخت انداز استعمال نہیں کرتے جو ابتدائی دنوں میں ان کی پہچان تھا۔
مزید پڑھیے: الیکشن کمیشن نے سہیل آفریدی کی بات کو غلط سمجھا، علی محمد خان
ایک مرکزی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی کے اندر بھی سب اس تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں مگر نرمی کی اصل وجہ سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔ ان کے مطابق سنجیدہ رہنما چاہتے ہیں کہ وفاق اور اداروں کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں اور حکومتی ورکنگ ریلیشن قائم رہے۔ کارکن اگرچہ جذباتی قیادت پسند کرتے ہیں مگر سہیل آفریدی کو اس کا بھی احساس ہے۔
سیاسی تجزیہ کار محمد فہیم کے مطابق بھی سہیل آفریدی اب سوچ سمجھ کر بیانات دے رہے ہیں اور ان کے لہجے میں ابتدائی دور کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی پائی جاتی ہے۔
کیا سہیل آفریدی نے مفاہمت کا راستہ اختیار کر لیا ہے؟
سہیل آفریدی کی نرمی کو سیاسی مخالفین ’مفاہمت‘ کا نام دے رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی رہنما اس تاثر کو تسلیم نہیں کرتے۔
ایک رہنما کے مطابق نرم لہجہ اور قانونی جدوجہد اپنانا سہیل آفریدی کی مجبوری ہے کیونکہ تصادم سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ان کے مطابق سہیل آفریدی بعض مواقع پر سخت بیانات بھی دیتے ہیں اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بھی بناتے ہیں۔
تجزیہ کار محمد فہیم کہتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد جذباتی حکمت عملی میں تبدیلی آنا ایک فطری امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ اسے مفاہمت کہیں، حکمت عملی کہیں یا سمجھداری ، سہیل آفریدی کو اندازہ ہو چکا ہے کہ معاملات کو درست کیسے چلایا جائے۔
مزید پڑھیں: مزید 4 ججوں کے استعفے تیار، سہیل آفریدی پارٹی کے لیے بہتر کیسے؟
ان کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی بھی پی ٹی آئی کے ’جذباتی مائنڈ سیٹ‘ کا حصہ ہیں مگر وزیراعلیٰ کی کرسی سے انہیں سمجھ آگئی ہے کہ صوبائی معاملات جذبات سے حل نہیں ہوتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ این ایف سی اجلاس میں شرکت کا ان کا فیصلہ ایک مثبت قدم ہے جس سے مرکز کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی توقع ہے۔
سینیئر صحافی محمد عمیر بھی سہیل آفریدی کے رویے کو سیاسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سہیل آفریدی جذباتی اور نڈر ضرور ہیں مگر انہیں اب اندازہ ہو چکا ہے کہ وفاق اور اداروں کے ساتھ چلنا کتنا ضروری ہے۔
کیا سہیل آفریدی طویل سیاسی اننگز کھیل سکیں گے؟
علی امین گنڈاپور جیسے طاقتور وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے بعد کچھ حلقے سہیل آفریدی کو ’عارضی وزیراعلیٰ‘ سمجھ رہے تھے مگر سہیل آفریدی اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: خیبر پختونخوا کی نئی کابینہ میں پرانے چہرے، علی امین اور سہیل آفریدی میں سے درست کون؟
محمد عمیر کے مطابق ابتدا میں خیال تھا کہ شاید انہیں کچھ وقت کے لیے لایا گیا ہے مگر اب لگتا ہے کہ وہ مضبوطی سے حکومت چلا رہے ہیں اور طویل سیاسی اننگز کے امیدوار ہیں۔
ان کے مطابق سہیل آفریدی پارٹی میں عام ورکرز کے بھی پسندیدہ ہیں اور جذبات کے بجائے حکمت عملی اور سیاسی انداز میں کام کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نرمی اپنانا ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے عمران خان سے ملاقات کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بند کمروں کے فیصلوں سے امن قائم نہیں کیا جا سکتا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی
تاہم محمد عمیر کا کہنا ہے کہ پارٹی میں ان کی مخالفت بھی موجود ہے اور کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ حالات بہتر ہوں مگر سہیل آفریدی اس صورتحال سے آگاہ ہیں اور اسی لیے وہ نرمی اور سمجھداری کا راستہ اپنا رہے ہیں۔














