پاک افغان کشیدگی کے باعث چمن اسپن بولدک سرحد کی طویل بندش نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی اربوں روپے کی روزانہ تجارت کو مکمل طور پر منجمد کر دیا ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی جھڑپ کے بعد سرحد کو مسلسل بند رکھا گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں ٹرک کئی ہفتوں سے بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں بلکہ پھل اور سبزیاں سڑ کر ضائع ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال نے افغانستان کے اندر بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت سنگین حد تک بڑھ دیا ہے
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
چمن کے مقامی تاجر حاجی عثمان خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں بارڈر پر پڑے ہوئے سینکڑوں ٹرک تیزی سے خراب ہوتے سامان کے ساتھ مکمل طور پر بیکار ہو چکے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ کا بڑا حصہ پاکستان سے آنے والی اشیا پر منحصر ہے، اور سرحد بند ہونے کے بعد سب سے زیادہ متاثر وہی عام لوگ ہو رہے ہیں جنہیں نہ خوراک میسر ہے اور نہ ہی بنیادی ادویات۔ افغانستان کا اپنا پیداواری انفراسٹرکچر اتنا مضبوط نہیں کہ وہ اچانک اس خلا کو پُر کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں میڈیسن، سبزیوں اور پھلوں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔

ایوانِ صنعت و تجارت کوئٹہ کے نائب صدر جی اختر نے بھی اس صورتحال کو سنگین ترین معاشی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اربوں روپے کی روزانہ تجارت سرحد بند ہونے کے بعد مکمل طور پر رُک گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانکس، ادویات، ٹشو پیپر، کپڑا، مصالحے، گندم، چاول اور دیگر درجنوں اشیائے ضروریہ کے بڑے بڑے ٹرک ہفتوں سے کھڑے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ اس وقت پاکستانی مصنوعات کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہے، جس نے نہ صرف اشیا کی قلت پیدا کی ہے بلکہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چمن: پاک افغان سرحد پر مہاجرین کا انخلا جاری، تجارتی سرگرمیاں دوسرے روز بھی معطل
انہوں نے کہا کہ ادویات تو تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں اور افغانستان اب اپنا انحصار ایران، تاجکستان اور دیگر ممالک سے ہونے والی مہنگی درآمدات پر منتقل کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرحد کی بندش نے عام افغان شہریوں کی زندگی کو بھی بے حد متاثر کیا ہے، کیونکہ علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرنے والے مریضوں کی آمد مکمل طور پر رک گئی ہے۔
افغانستان کے اندر پہلے ہی صحت کا بنیادی نظام کمزور ہے، اور کئی اضلاع میں معمولی علاج کے لیے بھی پاکستان پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سرحد بند ہونے سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ بندش طویل عرصے تک جاری رہی تو پاکستان کی برآمدات کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کی جگہ ایرانی، وسطی ایشیائی اور دیگر ممالک کے سامان نے لینا شروع کر دی ہے۔
پاکستان کی افغان مارکیٹ میں دہائیوں پر محیط بنیاد کمزور پڑ سکتی ہے، جس کا اثر نہ صرف تاجروں بلکہ لاکھوں مزدوروں پر پڑے گا جو اپنی روزی روزگار کے لیے اسی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
ادھر بارڈر کے دونوں جانب کھڑے ٹرک ڈرائیور بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ کئی ہفتوں سے وہ سرحد کے قریب نہ مناسب خوراک کے ساتھ موجود ہیں، نہ آرام کے لیے جگہ میسر ہے اور نہ ہی کوئی واضح اعلان سامنے آ رہا ہے کہ سرحد کب کھلے گی۔
چمن کی مقامی معیشت، جو بارڈر ٹریڈ کے بغیر تقریباً مفلوج ہو جاتی ہے، اس وقت شدید جمود کا شکار ہے۔ بازار سنسان ہونے لگے ہیں، مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں اور مقامی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی تقریباً ٹھپ پڑ گیا ہے۔

چمن سرحد کی بندش نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاک افغان تجارت دونوں ملکوں کی معیشتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کشیدگی کم نہ ہوئی تو خوراک اور ادویات کا بحران افغانستان میں انسانی المیہ بن سکتا ہے جبکہ پاکستان کی بارڈر بیسڈ تجارت کو پہنچنے والا نقصان طویل المدتی منفی اثرات چھوڑ جائے گا۔














