لوگ انگشت بدنداں تھے۔ بات ہی ایسی تھی۔ جودھ پور کے وسیع اکھاڑے میں 400 پہلوان اتر چکے تھے۔ سپاٹوں کا مقابلہ تھا جس میں ایک 9 سالہ لڑکا بھی حصہ لے رہا تھا۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ اس مقابلے میں لڑکا تمام پہلوانوں کو پیچھے چھوڑ رہا تھا۔ ایک، ایک کرکے تمام پہلوان مقابلے سے نکلتے جا رہے تھے مگر اس لڑکے کی عجب ہمت تھی کہ اس کی صحت پر کوئی اثر ہی نہ ہو رہا تھا۔ لوگ سانس روکے اس عجیب و غریب مقابلے کو دیکھ رہے تھے۔ مہاراجہ جسونت سنگھ بھی حیرت زدہ تھاکہ یہ کیسا عجیب مقابلہ ہے جس میں تمام منجھے ہوئے نامور پہلوان ایک ایک کر کے نکلتے جا رہے ہیں لیکن ایک 9 سالہ لڑکا میدان میں جما ہو اہے۔
آخر کار مہاراجہ نے مقابلے کا فیصلہ سناتے ہوئے 9 سالہ لڑکے کو مرد میدان قرار دے دیا۔ اس کم عمری میں پہلوانی کا میدان مارنے والا یہ بچہ عزیزبخش پہلوان کا فرزند غلام حسین عرف گاما نون والا تھا۔ غلام حسین کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا اور وہ مشہور زمانہ نون پہلوان کا نواسہ تھا۔
گاما کا آبائی تعلق کشمیر سے تھا لیکن اس کے دادا نے امرتسر کی طرف ہجرت کر لی۔ اس کے باپ عزیز بخش نے پہلوانی کے فن میں اوج کمال حاصل کیا اور مقامی پہلوانوں کو زیر کر کے ریاست دتیہ کے حکمران بھوانی سنگھ کی سرپرستی میں چلا گیا۔ ادھر ریاست بڑودہ کا کھانڈے راؤ فوت ہوا تو اس کی ملازمت میں مشہور پہلوان امیر بخش المعروف نون پہلوان گرزبند نے ریاست کو خیر باد کہا اور ریاست دتیہ کا رخ کیا۔ بھوانی سنگھ کی خواہش پر نون پہلوان نے عزیز بخش کو اپنی فرزندی میں لے لیا۔ سنہ 1878 میں عزیز بخش کے ہاں غلام حسین پیدا ہوا۔ کوئی ساڑھے 5 برس کی عمر ہو گی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیااور گاما یتیم ہو گیا۔ گاما کا بھائی امام بخش باپ کے گزرنے کے بعد پیدا ہوا گویا وہ پیدائشی یتیم تھا۔باپ کے بعد گاما کے نانا نون پہلوان نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیالیکن جلد ہی نون پہلوان بھی ایک جھگڑےمیں راہی ملک عدم ہوا۔ اب اس کی سرپرستی اس کے ماموں عیدا پہلوان نے قبول کی اور اسے اکھاڑے میں اتار دیا۔
گاما کے ایک اور ماموں بوٹا پہلوان نے ریاست جودھ پور کے جسونت سنگھ کی رائے کے موافق گاما اور اس کے بھائی امام بخش کو استاد مادھو سنگھ پسر استاد گلاب سنگھ کی شاگردی میں دے دیا۔ 4 برس تک یہ تربیت جاری رہی، جس نے گاما کو کندن بنا دیا۔ اختر حسین شیخ کے مطابق’ 15 برس کی عمر میں گاما کا یہ حال تھا کہ وہ دتیہ کا ایک زہریلا تیر بن چکا تھا۔ بھوانی سنگھ جہاں کسی ابھرتے ہوئے پہلوان کاشہرہ سنتا، وہ گاما کو تیر کی طرح اس سمت میں چلا دیتا اور اس کا یہ تیر ‘بوم رنگ’ کی طرح ہدف پر لگنے کے بعد واپس آ جاتا۔ اس میں خوبی والی بات یہ ہوتی کہ ہر بار کامیابی اس کا مقد ر بنتی اور راجا دتیہ جذبہ ملکیت سے سرشار ہو جاتا’۔
اپنی صحت اور معیار پہلوانی کو برقرار رکھنے کے لیے گاما کو شروع ہی سے اعلیٰ خوارک دی جاتی جو پھل، دودھ اور باداموں پر مشتمل ہوتی جو آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ بچپن میں وہ روزانہ 500 ڈنٹر اور اتنے ہی سپاٹے لگاتا۔ 15 برس کی عمر میں وہ 3 ہزار سپاٹے اور اتنے ہی ڈنٹرپیلتا۔ 20 برس کی عمر میں یہ تعداد بڑھ کر 5 ہزار ڈنٹر اور 3 سے 4 ہزار سپاٹوں تک پہنچ گئی۔ اس عمر میں گھی مکھن اور گوشت کی یخنی کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ 25 سے 50 برس کی عمر تک وہ عموما روزانہ 6 ہزار سپاٹے اور 5 ہزار ڈنٹر پیلتا۔ خوراک روزانہ کے 6 مرغےیا 5 سیر چھوٹے گوشت کی یخنی مع ایک پاؤ گھی، 10 سیر دودھ، آدھ سیر گھی، پون سیر بادام اور مختلف مربہ جات پر مشتمل تھی۔
گاما کے فنی سفر کا جائزہ لیا جائے تو وہ پہلوانی کے تمام میدانواں کا فاتح نظر آتا ہے۔ کم عمری میں 400 پہلوانوں کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد وہ جب باقاعدہ کشتی کے میدان میں اترا تو جلد ہی اردگرد کے تمام پہلوانوں پر سبقت لے گیا۔ 17 برس کی عمر میں گاما نے مشہور زمانہ پہلوان اور رستم ہند رحیم بخش سلطانی والا کو مقابلے کی دعوت دے دی۔ رحیم بخش سلطانی والا 7 فٹ قد کا دیو مانند انسان تھا اور پہلوانی میں اس کا دور دور تک کوئی مد مقابل نظر نہ آتا تھا۔ یہ مقابلہ 1895ء میں منعقد ہوا جس میں سلطانی والا اپنے تمام تجربے اور مہارت کے باوجود گاما کو نہ گرا سکا۔ گو یہ کشتی فیصلہ کن نہ تھی مگر اہل فن جان گئے کہ گاما میدان پہلوانی میں بڑے بڑے برج گرا ئے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رستم ہند رحیم سلطانی والا، گاما کو چت نہ کر سکنے کے غم میں اگلے روز اکھاڑے ہی سے غائب رہا اور جب اس کے استاد کلو پہلوان نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا’استاد، مجھ سے کل کا چھوکرا نہ گر سکا، بس یہی غم کھائے جا رہا ہے‘۔
کلو نے سلطانی والا کو جو جواب دیا، وہ گاما کے روشن مستقبل کی کھلی دلیل تھی’گاما سے برابر رہنا بھی تیرا ہی کام تھا۔ اسے معمولی چھوکرا نہ کہو۔ وہ چیزے دیگر است ہے‘۔
کلو پہلوان کی بات سچ نکلی اور وقت نے ثابت کیا کہ گاما واقعی کوئی اور ہی چیز ہے۔ 20 برس کی عمر میں اس نے تمام برصغیر کے پہلوانوں کو دعوت مبارزت دے دی۔ یہ انتہائی چونکا دینے والا اعلان تھا کیوں کہ بڑے پہلوانوں نے اسے اپنی توہین سمجھا حتیٰ کہ اس کا اپنا ماموں عیدا پہلوان بھی اس سے ناراض ہو گیا۔ بہرحال دلچسپ بات یہ رہی کہ اس سلسلے کے پہلے ہی مقابلے میں گاما نے ریاست دتیہ کے نامی گرامی پہلوان غلام محی الدین کو اس قدر تیزی سے چت کیا کہ اس کشتی کا نام ہی ‘ادھ منٹی کشتی’ پڑگیا۔ اس فتح کے نتیجے میں والئ ریاست دتیہ کی جانب سے گاما کو 20 ہزار روپے اور 22 سیر وزنی چاندی کا گرز انعام میں دیا گیا۔
عمر کے ستائسویں برس گاما نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ وہ تمام پہلوان جو اس سے شکست کھا چکے ہیں، دوبارہ قسمت آزمائی کرتے ہوئے اس کے مقابل آ سکتے ہیں۔ 3 برس تک خاموشی رہی اور کوئی اس کے مقابل آنے کی جرات نہ کر سکا۔ آخر اس نے اپنے اعلان میں ایک لالچ بھی شامل کر دیا’جو پہلوان مجھے شکست دے گا میں اسے مبلغ 7 ہزار روپے انعام دوں گا‘۔ اس اعلان کے بعد حسن بخش ملتانی نے مقابلہ کرنا منظور کیا اور کلکتہ میں یہ کشتی طے پائی۔ گاما کی عمر اس وقت 32 برس تھی۔ گاما نے اس بار بھی بہت مختصر وقت میں حریف کو پچھاڑ دیا اور حسن بخش کو رسوا کن شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
گاما نے عالمی سطح پر بھی اپنا نام پیدا کیا اور ناقابل شکست رہا۔ 1910ء میں اس نے اپنے بھائی امام بخش پہلوان کے ہمراہ یورپ اور انگلستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے بے تحاشامقابلے کئے اور سب میں ناقابل شکست رہے۔ اس غیر ملکی سفر میں ان کا پہلا مقابلہ امریکی پہلوان بنجامن رولر سے ہوا جسے گاما نے ایک منٹ اور بیس سیکنڈ میں چت کیا۔ دوسرے راؤنڈ میں 9 منٹ اور 10 سیکنڈ میں چت کر دیا۔ دوسرا مقابلہ زبسکو سے ہوا جس میں گاما نے اسے شکست دے کر 250 پاؤنڈ کی انعامی رقم کے علاوہ جون بل بیلٹ اپنے نام کی۔ اس مقابلے کے بعد ہی گاما کو رستم زماں کے خطاب سے نوازا گیا۔ان مقابلوں کی دلچسپ بات یہ ہے کہ زبسکو نے راہ فرار اختیار کی اور شہر چھوڑ کرہی بھاگ گیا۔ شایداس نے ابتدائی مقابلوں میں اندازہ کر لیا تھا کہ وہ گاما کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ گاما نے ترکی پہلوان محمود، اطالوی پہلوان جان لیمب اور برطانوی پہلوان ہاک سمتھ کو بھی چت کیا۔
وقت گزرتا گیا اور گاما نا قابل شکست رہا۔ سنہ 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تا گاما رستم زماں پٹیالہ سے لاہور اپنے مکان واقع پھلیریاں والی گلی محلہ ستھاں میں آگیا۔گاما کے ساتھ اس کے بھائی امام بخش اور بھتیجوں بھولو برادران نے بھی لاہور ہی میں قیام کیا۔
1959ء میں گاما کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
23 مئی 1960ء کے روز یہ رستم زماں اپنی یوم سالگرہ کے ایک روز بعد اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔
گاما کی 23 ویں برسی کے موقع پر حکیم محمد کریم انصاری نے روزنامہ امروز میں گاما اور امریکی پہلوان ڈاکڑ رولر کی لڑائی کا سماں اشعار میں باندھا جن میں سے کچھ پیش خدمت ہیں:
کھڑے ہو کے گاما نے اک پٹ لیا
تو رولر وہیں اس پہ چھانے لگا
تو گاما نے پٹ چھوڑ کر ایک دم
بھریں دونوں بغلیں بڑھا کر قدم
دیا داہنا پیر باہر سے مار
گرا چاروں شانے وہ چت ایک بار
لگا ایک منٹ دس سیکنڈ ایک آن
کہ سینے پہ تھا شیر ہندوستان
یہ تصویر دنگل میں کھینچی گئی
تھا رولر کے سینے پہ جس دم جری