تاجکستان میں افغان علاقے سے حملے میں 3 چینی شہری ہلاک ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس کے نزدیک فائرنگ، نیشنل گارڈ کے 2 اہلکار شدید زخمی، مشتبہ افغان حملہ آور گرفتار
غیر ملکی میڈیا کے مطابق تاجکستان کے حکام نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ افغان سرحد کے قریب ہونے والی ایک مسلح حملے میں 3 چینی کارکن ہلاک ہو گئے ہیں۔
تاجکستان اور افغانستان کے طالبان حکومت کے درمیان کشیدگی کے باعث حالیہ مہینوں میں کئی سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تاجک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں فائرنگ کے علاوہ ایک ڈرون کا استعمال کیا گیا جس پر گرینیڈ نصب تھے جس کا ہدف جنوبی تاجکستان میں ایک چینی کمپنی کے کارکن تھے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آتشیں اسلحہ اور ڈرون کے ذریعے کیے گئے اس حملے میں تین چینی شہری ہلاک ہوئے۔ تاہم تاجکستان حکومت نے حملہ آوروں کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
تاجکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 1,350 کلومیٹر طویل سرحدی علاقے میں انتہا پسند گروہ سرگرم ہیں۔
مزید پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے نزدیک نیشنل گارڈز پر فائرنگ کرنیوالا رحمان اللہ لکنوال کون ہے؟
سابق سوویت یونین کے ممالک میں سے ایک تاجکستان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے انتہا پسندی کے ممکنہ پھیلاؤ کو لے کر سخت تشویش کا شکار ہے۔
صدر امام علی راخمون، جو سنہ 1992 سے اقتدار میں ہیں، طالبان کے سخت ناقد ہیں اور افغان تاجک قوم کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو افغانستان کی 40 ملین آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتے ہیں۔
اگرچہ تاجکستان نے کچھ سفارتی اور تجارتی روابط قائم کیے ہیں مثلاً سرحدی علاقوں میں مارکیٹیں کھولنا اور بجلی کی فراہمی لیکن وہ طالبان کے ساتھ تعلقات میں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ، امریکا نے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستیں معطل کر دیں
تاجک وزارتِ خارجہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجود مجرمانہ عناصر سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کو خراب کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
تاجکستان میں کئی چینی کمپنیاں، خاص طور پر کان کنی اور قدرتی وسائل کے شعبے میں کام کر رہی ہیں جو زیادہ تر پہاڑی سرحدی علاقوں میں واقع ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر زرداری سے تاجکستان کے وزیر دفاع کی ملاقات، باہمی تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق
گزشتہ سال بھی ایک ایسے ہی حملے میں ایک چینی کارکن ہلاک ہوا تھا۔














