ملکی مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں: جسٹس (ر) وجیہہ الدین

منگل 23 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج اور ’عام لوگ اتحاد‘ کے نام سے سیاسی جماعت کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رکن بھی رہے ہیں، نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ نااہل لوگوں کو انتہائی اہم ذمے داریاں تفویض کرنا ہے۔ نتیجے کے طور پر جب حکومت آئی تو جس منشور پر عمل درآمد کرنا تھا وہ نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد ایک بتدریج تنزلی کا سفر تھا جو پارٹی نے فیس کیا۔

ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت ختم کرنا بہت بڑی غلطی تھی

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت ساری قوتیں بھی کارفرما رہتی ہیں۔ جس طرح سے پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا جس سے ایک اِن ہاؤس تبدیلی آئی یہ بڑی افسوسناک بات ہے۔

جسٹس وجیہہ نے کہا کہ انتخابی عمل کے ذریعے حکومت کو ضرور گرایا جا سکتا ہے لیکن یہ جو ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے جس کا پاکستان روز اول سے شکار رہا، یہ بڑی افسوسناک صورتحال ہے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف تو ناکام ہوئی لیکن اس سے زیادہ موجودہ اتحادی جماعتوں کی حکومت ناکام ہوئی۔ ان کے مطابق یہ جو سیاسی غلطیاں بلکہ بلنڈرز کرتے ہیں اس کا ایک مکافات عمل ہوتا ہے جس کا پہلے سامنا پی ٹی آئی نے کیا پھر پی ڈی ایم کی جماعتیں کر رہی ہیں۔

کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور سے ہٹ گئی؟

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور میں مذکور انصاف اور بیرونی مداخلت کے بیانیے پر بالکل الٹ سمت میں گامزن رہی لیکن انہوں نے اپنے منشور سے انحراف ضرور کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کتنے ہی مقبول لیڈر ہوں، کتنے ہی اچھے انسان ہوں، عوام تو کارکردگی مانگتی ہے۔ عوام تو مہنگائی سے چھٹکارا چاہتی ہے، ملازمتیں چاہتی ہے، صحت اور دوسری معاشرتی ضروریات کی فراہمی چاہتی ہے۔ اگر آپ ان عوامل کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو آپ کی مقبولیت تو کم ہو گی۔

کیا عمران خان جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے شخص ہیں؟

اس سوال کے جواب میں جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ مثالی صورتحال کے مطابق تو وہ ایک جمہوری روایات پر عمل کرنے والے شخص نہیں ہیں لیکن جمہوری روایات کے فروغ کے لیے وہ کام کرتے رہے ہیں جس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔

ایک سوال کہ ’کیا پاکستان تحریک انصاف کا پارلیمانی رویہ جمہوریت کا عکاس ہے‘ کے جواب میں جسٹس وجیہہ نے کہا کہ وہ اتنا ہی جمہوری ہے جتنا ان سے پہلی سیاسی جماعتوں کا تھا یا جتنا موجودہ سیاسی جماعتوں کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں جمہوری اصول نام نہاد ہی رہے ہیں، بات تو جمہوریت کی ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق اصل صورتحال وہ تو نہیں ہوتی۔

عمران خان صرف مقبول عام نعروں کا استعمال کرتے ہیں؟

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ اس ملک میں ہمیشہ مقبول عام نظریات پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔ جو بھی لیڈر آتا ہے باتیں کرتا ہے عمل درآمد اس پر نہیں ہوتا۔ مقبول عام نظریات کا پرچار ہی اس ملک کی سیاسی بیماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی عمل کو دُہرا کر اس کے نتائج تو نہیں بدلے جا سکتے۔

پی ٹی آئی میں رہ کر عوام کو دھوکہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوا کہ پی ٹی آئی نے بین الجماعتی انتخابات کرائے جس پر میں نے کہا کہ ان میں دھاندلی ہوئی ہے اور انتخابات دوبارہ ہونے چاہییں جو کہ دوبارہ نہیں کرائے گئے جس پر میں نے مجبوراً فیصلہ کیا کہ پارٹی کو چھوڑ دوں۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے بتایا کہ میں نے محسوس کیا کہ یہ لوگ وہ کرنے والے نہیں ہیں جو ان کے منشور کے اندر ہے، جس کے انہوں نے وعدے کیے ہیں یا جس کے لیے پارٹی کھڑی ہوئی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر ان کے ساتھ کھڑا رہا تو میں پاکستانی عوام کو جھوٹا تاثر دے رہا ہوں گا کہ جو بھی یہ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔

انھوں نے کہا کہ میرا فائدہ اسی میں تھا کہ میں پارٹی میں رہتا کیونکہ پارٹی کے انتخابات جیتنے کے مواقع تھے لیکن اپنے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے میں نے سوچا کہ لوگ میری وجہ سے ان کی باتوں پر یقین کریں گے جو یہ کرنے والے نہیں ہیں۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ میں تقریباً 5 سال پی ٹی آئی میں رہا۔ عمران خان میری عزت کرتے تھے گو کہ آخر میں اختلافات ہو گئے تھے لیکن میں عوام کو دھوکہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔

پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ سازش تھی یا ان کی اپنی غلطیاں؟

اس سوال کے جواب میں جسٹس وجیہہ نے کہا کہ بالکل یہ ایک سازش تھی اور شاید حکومت کے خاتمے سے سال ڈیڑھ سال پہلے اس سازش کا آغاز ہو گیا تھا، انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ مستقل طور پر آپ کی پشتی بانی نہیں کرتی، کبھی حالات مختلف ہوتے ہیں۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ جن لوگوں نے پی ٹی آئی حکومت کو ہٹایا انھوں نے بہت بڑی غلطی کی کیونکہ اگر پی ٹی آئی حکومت جاری و ساری رہتی تو جس طرف وہ جا رہی تھی، وہ تو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو ختم کر لیتے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کو تبدیل کیا گیا جس سے پی ٹی آئی مقبولیت کے اس درجے پر پہنچ گئی جہاں وہ 2018 میں بھی نہیں تھی۔ وہ جو خود جانے والے تھے وہ جو خود کو ختم کرنے والے تھے آپ نے ان کو آب حیات پلا دیا۔

کیا اس سال انتخابات ہو جائیں گے؟

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ بہت ساری قوتیں پاکستان میں انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ نظام پر حاوی ہونا چاہتی ہیں لیکن اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف اکثریت سے جیت جائے گی جو کچھ عناصر کو قبول نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات کو التواء میں ڈال کر پی ٹی آئی کو ایکسپوز کر کے اس کی مقبولیت کم کی جا سکتی ہے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ کسی عوامی قیادت کا متبادل بننے کے لیے آپ کے کام ایسے ہونے چاہییں جو عوام سے اس قیادت کا مقام ختم کر دیں لیکن آپ ایسے کام نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنا انتخابات کو التوا میں ڈالا جائے گا اس سے پی ٹی آئی کی سادہ اکثریت، غالب اکثریت میں بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صاف اور شفاف انتخابات ہونے چاہییں لیکن مکمل طور پر غیر شفاف انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے لوگوں کو ادراک ہو گیا ہے کہ کونسی چیز ان لوگوں کے لیے درست ہے۔

عمران خان کے خلاف سب سے خطرناک مقدمہ کونسا ہے؟

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ عمران خان کے خلاف 140 مقدمات ہیں جو کسی عوامی لیڈر کی سب سے زیادہ پراسیکیوشن ہے لیکن اصل میں اہم مقدمات دو تین ہی ہیں جن کی کوئی اہمیت ہے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان نے جو کیا وہ اتنا اچھا نہیں تھا لیکن ان سے پہلے رہنے والے لوگوں نے بھی یہی سب کچھ کیا ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ نے کہا کہ اس مقدمے میں اگر تو پیسہ باہر سے آیا اور اس کو مناسب انداز میں ڈیکلیئر نہیں کیا گیا لیکن عمران نے تو وہ پیسہ نہیں کھایا اس لیے وہ کوئی بڑی بات نہیں۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ القادر ٹرسٹ مقدمے میں اصل فریق تو ملک ریاض اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی ہے، فیور تو عمران نے ضرور لیا لیکن پیسہ عمران تو نہیں لے گیا۔

کابینہ کے اجلاس میں بند لفافے میں دستاویزات کی منظوری اور پھر برطانیہ سے موصول شدہ رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالنے کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ نے کہا کہ یہ واقعی میں قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن عمران کو جو فائدہ پہنچا وہ تو صرف پلاٹوں کی صورت میں تھا جو ایک ٹرسٹ کے لیے تھے جو ہونا نہیں چاہیے تھا۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ پیسے اپنے اکاؤنٹ میں قبول نہیں کرنے چاہییں تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس نوعیت کے جرائم نہیں ہیں جو پاکستان میں سیاسی لیڈر کرتے رہے ہیں۔ یہ باتیں بری ضرور ہیں نہیں ہونی چاہییں تھیں۔

آڈیو لیکس کمیشن

آڈیو لیکس معاملے پر بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ نے کہا کہ یہ تو حال ہی کی آڈیو لیکس ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس سے پہلے جج ارشد ملک والے معاملے پر کیا ہوا، کیسے وہ ہارٹ اٹیک سے جاں بحق ہو گیا، اس پر کیا تحقیقات ہوئیں؟

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک حکمنامہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق مقدمات نہیں سن سکتے، انھیں اس کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور اس تقرری کے لیے چیف جسٹس سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔

انھوں نے کمیشن میں شامل ججز کی غیر جانبداری کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ایک محدود ہدف کے لیے آپ نے کمیشن بنا دیا جو صرف حال ہی میں ہونے والے واقعات کی تحقیق کرے گا لیکن اس طرح کی چیزیں تو بہت عرصے سے چل رہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم کیوں ہے؟

اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ عام طور پر دنیا بھر میں عدالتیں اس طرح سے تقسیم نہیں ہوتیں لیکن اس تقسیم کی ابتدا بھی نواز شریف نے کی جب ان کی حکومت کو بحال کیا گیا تو جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اگر سندھی وزیراعظم ہو تو حکومت بحال نہیں ہو سکتی لیکن اگر پنجابی وزیراعظم ہو تو حکومت بحال ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر نواز شریف اور ن لیگ کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عدلیہ میں تقسیم پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔ پنجاب الیکشن التوا کے معاملے پر بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ نے کہا کہ یہ 3-4 کا نہیں بلکہ 3-2 کا فیصلہ تھا۔

پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ نے کہا کہ میرے خیال میں پاکستان کے مسائل کا حل انتخابات میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ پاکستان میں جاری جنگ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوتوں کی جنگ ہے، ایک طرف روس اور چین جبکہ دوسری طرف مغربی قوتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو غیر جمہوری انتظام کے ذریعے چلانا ممکن نہیں اس لیے پاکستان کے مسائل کا واحد حل صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پنجاب حکومت اور تعلیم کے عالمی شہرت یافتہ ماہر سر مائیکل باربر کے درمیان مل کر کام کرنے پر اتفاق

وسط ایشیائی ریاستوں نے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، وزیراعظم پاکستان

حکومت کا بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے 2 ہزار سے زیادہ بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ

کوپا امریکا کا بڑا اپ سیٹ، یوراگوئے نے برازیل کو ہرا کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا

ٹی20 کرکٹ سے ریٹائر بھارتی کپتان روہت شرما کیا ون ڈے اور ٹیسٹ کے کپتان برقرار رہیں گے؟

ویڈیو

پنک بس سروس: اسلام آباد کی ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کے لیے خوشخبری

کنوؤں اور کوئلہ کانوں میں پھنسے افراد کا سراغ لگانے کے لیے مقامی شخص کی کیمرا ڈیوائس کتنی کارگر؟

سندھ میں بہترین کام، چچا بھتیجی فیل، نصرت جاوید کا تجزیہ

کالم / تجزیہ

روس کو پاکستان سے سچا پیار ہوگیا ہے؟

مریم کیا کرے؟

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا