لاہور ہائیکورٹ کی راولپنڈی بینچ نے سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ابتدائی اعتراض مسترد کردیے۔
عدالت نے اس ضمن میں وفاقی حکومت، وزارتِ خزانہ، ایف بی آر، وزارتِ انسانی حقوق اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کو 2 ہفتوں کے اندر شق وار جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ ماہواری سے متعلق مصنوعات کو غیر ضروری یعنی لگژری اشیا قرار دینا بنیادی حقوق اور آئینی مساوات کے منافی ہو سکتا ہے، اس لیے معاملہ قابلِ سماعت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹری پیڈز پر ٹیکس چیلنج، لاہور ہائیکورٹ میں رِٹ قابلِ سماعت قرار
واضح رہے کہ سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس کیخلاف درخواست نوجوان وکیل ماہ نور عمر کی جانب سے عوامی مفاد کے تحت دائر کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ سینیٹری پیڈز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور درآمدی خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی سمیت 40 فیصد سے زائد مجموعی ٹیکس خواتین کی صحت، وقار اور تعلیم و روزگار میں برابر شرکت کے حق میں رکاوٹ بنتا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 5 کروڑ بالغ خواتین موجود ہیں، لیکن مہنگی مصنوعات کے باعث اکثریت معیاری سینیٹری پیڈز استعمال کرنے سے قاصر ہے، جس کے نتیجے میں صحت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب آگاہی اور معلومات کی ترسیل ایکٹ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وکیل ماہ نورعمر نے کہا کہ سماعت کے دوران بینچ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ جن مصنوعات کو پوری دنیا ’بنیادی حفظانِ صحت کی ضروری اشیا‘ سمجھتی ہے، انہیں پاکستان میں اب تک لگژری کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ماہواری سے متعلق مصنوعات کو مہنگا رکھ کر خواتین کو صحت، تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس پالیسی ایک انتظامی معاملہ ہے، تاہم عدالت نے واضح کیا کہ جب کوئی پالیسی بنیادی حقوق، صنفی مساوات اور صحت کے تحفظ کے اصولوں سے ٹکراتی ہو تو عدالتی نظرثانی نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں جنات کے خلاف خاتون کے اغوا کا مقدمہ زیرسماعت، تحقیقاتی کمیٹی سرگرم
عدالت نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق فیصلہ سازی میں خواتین کی ضروریات اور معاشرتی حقائق کو حاشیے پر نہیں رکھا جا سکتا۔
ماہ نور عمر نے مزید بتایا کہ ہم نے عدالت کے سامنے بین الاقوامی مثالیں بھی پیش کیں، جن میں بھارت، کینیا، آسٹریلیا اور برطانیہ شامل ہیں، جنہوں نے خواتین کی صحت کے پیش نظر ماہواری مصنوعات پر ٹیکس ختم یا کم کر دیا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں ٹیکس میں کمی سے مارکیٹ قیمتوں میں واضح کمی آئے گی، جس سے زیادہ خواتین باعزت اور محفوظ طریقے سے یہ مصنوعات استعمال کر سکیں گی، جبکہ معاشرتی اور طبی نتائج بہتر ہوں گے۔
عدالت نے تمام فریقین کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ڈھانچے، قیمتوں پر ممکنہ اثرات، صنفی مساوات اور آئینی نکات سے متعلق مفصل اور شق وار جواب جمع کروائیں۔ کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔














