امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات چھوڑ کر جنگ کا راستہ اس لیے اختیار کیا تاکہ وہ اندرونی کمزوریاں چھپا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا مسئلہ افغان عوام سے نہیں، افغان طالبان رجیم سے ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
منجھے ہوئے سفارتکار مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات ایک تو دوطرفہ مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے نہیں ہوئے، سہ فریقی یا ثالثی مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے، نہیں ہوئے کیونکہ افغان طالبان نے جنگ کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمارے معصوم شہریوں کو مارتے رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں آئی ایس پی آر نے دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی جو تفصیلات جاری کی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں
مسعود خان نے کہا کہ ہمارے اتنے لوگ بھارت کے ساتھ ایک بڑی اور خطرناک جنگ میں شہید نہیں ہوئے جتنے دہشتگردی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ جنگ میں سینکڑوں جب کہ 2021 سے اب تک ہزاروں لوگ شہید ہو چُکے ہیں جبکہ 2025 کا سال پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے لحاظ سے قیامت خیز سال تھا۔ تو یہ ایک بہت بڑی جنگ ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سفارتی لحاظ سے 2025 پاکستان کے لیے کامیابیوں کا سال رہا اور ساری دنیا پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ افغانستان اِس معاملے میں بالکل تنہا ہے۔
افغان طالبان اندرونی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لیے جنگ کر رہے ہیں
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں افغانستان کو حالتِ جنگ میں مبتلا کر کے وہ پورے افغان عوام کو پاکستان کی دشمنی پر مائل کرنا چاہتے ہیں کہ جو آوازیں ان کے خلاف اٹھ رہی تھیں وہ پاکستان کے خلاف ہو جائیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بنیادی دشمنی نہیں ہے۔
پاک افغان مسئلے کے حل کے لیے چوتھا راستہ کیا ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ دوطرفہ، سہ فریقی اور ثالثی مذاکرات کی ناکامی کے بعد چوتھا راستہ جس کے بارے میں آج کل گفتگو ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر وہ قوتیں جو طالبان رجیم کے خلاف ہیں وہ کوشش کریں لیکن پاکستان نے اب تک بڑھ کر اُن قوتوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
شکست خوردہ اور حواس باختہ بھارت شرپسندی کے پیچھے ہے
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ جنگ میں ہارا ہوا حواس باختہ بھارت کھل کر شرپسندی کی حمایت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف اس شرانگیزی کا حمایت کار بھارت ہے جو پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے عالمی قدکاٹھ کو کم کرنا چاہتا ہے۔
دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کے کردار کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے پاکستان کو کامیابی ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کے نیٹ ورک کے بارے میں تمام دنیا کی خفیہ ایجنسیاں اور تمام ممالک اچھی طرح سے جانتے ہیں کیونکہ اب تو بھارت یہ سب کچھ علی الاعلان کر رہا ہے ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کھلم کھلا کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ پاکستان نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ڈوزئیر جمع کرا رکھے ہیں۔
بھارت کی امریکا کے ساتھ تزویراتی چھتری چھلنی ہوچکی
مسعود خان کا کہنا تھا کیہ بھارت کو صرف امریکا کے ساتھ تزویراتی اتحاد کی چھتری حاصل تھی لیکن اب اس چھتری میں بہت سارے سوراخ ہو چکے ہیں اور اب بھارت بچتا پھر رہا ہے، مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت پر پاگل پن سوار ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت جارحانہ بیانات دے رہا ہے، پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
فی الحال سفارتی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رہیں گی لیکن فی الحال اس کا کوئی سفارتی حل نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں چاہتا بلکہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملک اقتصادی ترقی پر توجہ دیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں لیکن اس معاملے کے اندر افغانستان نہیں بلکہ افغان طالبان رجیم حائل ہو گئی ہے۔ کیونکہ افغان عوام بھی تو ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ کشیدگی پوشیدہ جنگ نہیں رہی
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ دہشتگرد ہیں تو ایک درپردہ جنگ تھی لیکن اب بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ کوئی درپردہ جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی پشت پناہی افغان طالبان کر رہے ہیں اور افغان طالبان کے حیلے بہانے کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے یا تحریک طالبان پاکستان پر ان کا اختیار نہیں ہے، یہ باتیں اب کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جب افغانستان پر جوابی حملہ کرتا ہے تو افغان طالبان پاک افغان دشمنی کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ جب اصل میں ہماری دونوں قوموں کے درمیان بہت گہرے مراسم ہیں۔
افغان صورتحال سے وسط ایشیائی اور مسلمان ممالک سب متاثر ہو رہے ہیں
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا افغان صورتحال سے وسط ایشیائی ممالک ہوں یا بردار مسلمان ممالک سب کے مفادات کو خطرہ ہے۔ جبکہ افغان طالبان کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ اس جنگ میں امریکا کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ ہم نے لڑی ہے جس کا یہ شاخسانہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغان سرزمین پورے خطے اور عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہے
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہے لیکن افغان طالبان اس پر شادیانے بجا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس تجارتی بندش کو برداشت کر سکتا ہے افغان حکمران بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن یہ افغان عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس معاملے میں فیاضی سے کام لیا ہے۔












