اسلام آباد حادثہ: جج کے بیٹے کی رہائی کے باوجود کئی سوال برقرار

جمعرات 11 دسمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینیئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ ایک جج کے 16 سالہ بیٹے کا بنا لائسنس مبینہ طور پر تیز رفتار لینڈ کروزر سے 2 لڑکیوں کو کچل کر ہلاک کردینا اور پھر 5 دن کے اندر ہی لواحقین سے معافی لے کر رہائی پاجانا انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد حادثہ، جج کے کم عمر بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے 2 جوان لڑکیاں جاں بحق

وی نیوز کے پروگرام صحافت اور سیاست میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ اس واقعہ نے معاشرے میں بڑے خوفناک سوالات چھوڑے ہیں۔

ان کے مطابق واقعے کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ 2 بچیوں کی ہلاکت کے بعد محض پانچ دن میں ایک بااثر خاندان کا فرد کیسے رہا ہو گیا؟ اس سے یہ تاثر ملا ہے کہ اشرافیہ کے لیے راستے ہمیشہ صاف رہتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو ایسی کوئی سہولت نہیں ملتی۔

ثاقب بشیر کے مطابق اس کیس نے ٹریفک پولیس، پولیس اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے حساس ترین واقعات میں بھی پولیس فوری طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج، ایف آئی آر اور گرفتاری سے متعلق اپڈیٹ فراہم کرتی ہے مگر اس کیس میں پولیس ترجمان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عام شہری ہوتا تو پولیس کئی سطحوں پر کارروائی کرتی۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد حادثہ: ہائیکورٹ جج کی ماورائے عدالت تصفیے کی کوششیں، صحافی اسد ملک کا انکشاف

ثاقب بشیر نے بتایا کہ ٹریفک پولیس نے بھی اس معاملے میں کوئی واضح کارروائی نہیں دکھائی حالانکہ یہ کئی قانونی جرائم پر مشتمل کیس تھا۔

ان کے مطابق یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اس سے جڑے 6 دیگر قانونی سوالات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف لواحقین نے معاف کر دیا لیکن دوسری طرف ریاستی اداروں کو بغیر لائسنس، جالی نمبر پلیٹ اور زیرِ عمر ڈرائیونگ جیسے جرائم پر کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد زخمیوں کو قریبی پولی کلینک کے بجائے دور موجود پمز اسپتال لے جانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب موقعے پر پہنچے اور بچے کو اپنی دوسری گاڑی میں گھر بھیج دیا گیا جبکہ پولیس کو گرفتاری ڈالنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔

مزید پڑھیں: کم عمر بچے کی گاڑی چلاتے پرانی ویڈیو وائرل، ’کیا یہ وہی ابوذر ہے جس کی گاڑی سے 2 لڑکیاں جاں بحق ہوئیں؟‘

ثاقب بشیر کے مطابق جب ملزم کو ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا، میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور رپورٹرز کی بنائی گئی کچھ ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کروائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی آرڈر کی کاپی بھی 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہو سکی، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔

ثاقب بشیر نے کہا کہ ملزم کا بھائی عدالت سے روتا ہوا نکلا لیکن اندر کیا معاملہ طے ہوا یہ واضح نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت کے بغیر ایسے کیسز میں سوالات بڑھتے رہتے ہیں اور یہ عمل نہ صرف جوڈیشری بلکہ پورے انتظامی نظام کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسکوٹی پر سوار لڑکیوں کو کچلنے کا واقعہ، جج کے بیٹے کا جسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر حکومت، پولیس، ٹریفک پولیس، جوڈیشری یا کسی بھی ادارے نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

فیض حمید اب عمران خان کے خلاف گواہی دیں گے، فیصل واوڈا

پی ٹی آئی صوبے میں ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جو گورنر راج کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو

وزیراعظم شہباز شریف کی ترکمانستان کے صدر سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق

کورونا وبا: انسانیت بیچین تھی لیکن سمندری مخلوق نے سکھ کا سانس لیا

9 مئی فوج کے سینے میں زخم، فیض حمید کی سزا آنے والے فیصلوں کی ابتدا ہے، عمار مسعود

ویڈیو

کوئٹہ میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سفری سہولت کا آغاز، گرین بس منصوبے میں پنک بسوں کا اضافہ

فیض حمید کو سزا، اگلا کون؟ عمران خان سے متعلق بڑی پیشگوئی

خضدار کی سلمٰی جو مزدوری کی کمائی سے جھونپڑی اسکول چلا رہی ہیں

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر

سیٹھ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں

تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل