نظام انصاف کی فعالیت میں پاکستان دنیا کے 140 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر ہے۔ مغربی ممالک کے برعکس جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان میں لوگ بڑے بڑے مسائل کے لیے بھی عدالت جانے سے کتراتے ہیں اور ان مسائل کو جرگوں میں طے کر لیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ نظام انصاف پر عدم اعتماد ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ عدالت جانا مصیبت مول لینے کے مترادف ہے اور اسی لیے بعض اوقات بڑے بڑے گھمبیر نوعیت کے فراڈ اور ناانصافیوں کو بھی لوگ اپنی قسمت سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ملکی نظام انصاف سے رجوع نہیں کرتے کیونکہ اس میں پیسے اور وقت کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں خواری الگ سے ہے۔
جہاں یہ عدالتی نظام عام آدمی کے لیے وبالِ جان ہے وہیں یہ نظام انصاف طاقتور لوگوں کا پسندیدہ بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے جھوٹے مقدمے درج کروا کر یہ لوگ کسی بھی شخص کو سالوں رسوا کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 25 فروری 2023 تک سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 52 ہزار 450 تھی جبکہ دیگر عدالتوں میں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ 2018 سے لے کر 2022 تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رہی جن کا بنیادی نعرہ ہی نظام انصاف کی تطہیر تھا لیکن اس نظام کی اصلاح تو کیا ہوتی صورتحال مزید دگرگوں ہو گئی۔
پاکستان کے نظام انصاف میں بے شمار خرابیاں ہیں: کامران مرتضیٰ
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل کامران مرتضٰی نے بتایا کہ پاکستان کے نظام انصاف میں بے شمار خرابیاں ہیں۔ عدالتوں پر تو الزام لگتا ہی ہے کہ وہ نظام انصاف میں خرابی کی ذمے دار ہیں لیکن اس میں وکیل اور سائل بھی ذمے دار ہیں۔ کئی سائل جھوٹے مقدمات دائر کرتے ہیں جو سالوں چلنے کے بعد جھوٹے ثابت بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان پر کوئی جرمانہ یا سزا عائد نہیں کی جاتی۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ججوں کی کرپشن اور سہولتوں کی عدم دستیابی بھی نظام انصاف کی غیر فعالیت میں ایک رکاوٹ ہے۔ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں ججوں کے پاس مقدمات کی طویل فہرستیں نہیں ہوتیں لیکن سندھ اور پنجاب میں ججوں کے پاس مقدمات کی اتنی طویل فہرستیں ہوتی ہیں جن پر بروقت فیصلے کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ فوجداری مقدمات میں ایک کیس کی شنوائی 3 سے 4 سال بعد ہوتی ہے جبکہ سول مقدمات میں اتنے ڈاکومنٹس آ جاتے ہیں، فائلیں اتنی موٹی ہو جاتی ہیں کی جج انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ بیشتر مقدمات میں مقدمے باز جھوٹ بولتے ہیں۔ ’ایک سوال کے کہ کیا نظام انصاف کو ڈیجیٹل کرنا یعنی عدالتوں کو مطلوب ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنا مسئلے کا حل ہے، کامران مرتضٰی نے کہا کہ اس سارے نظام انصاف کو بدلنے کی ضرورت ہے‘۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انصاف کی فراہمی لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے نا صرف اس نظام کو زیادہ وسائل دینے کی ضرورت ہے بلکہ بنیادی تبدیلیاں بھی ناگزیر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کسی ایک پہلو پر کام کرنے سے سدھار نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے ہمہ جہت کام کرنا پڑے گا۔ عدالتی عملے کی تنخواہیں عام سرکاری ملازمین سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں ہو پاتیں۔
پورے نظام کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے: مدثر خالد عباسی
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مدثر خالد عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے رٹ جوریسڈکشن کو محدود کرنے کی ضرورت ہے اور ریگولر مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جانا چاہیے۔ نظام انصاف کی درستگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس پورے نظام کو اس سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
مدثر خالد عباسی نے کہا کہ بنیادی خرابی کا آغاز ججوں کی تعیناتی سے ہوتا ہے۔ قانون یا نظام جتنا مرضی اچھا ہو لیکن اس کو چلانے والا اگر خراب ہے تو نتائج خراب ہی آئیں گے۔
انھوں نے کہا کہ سول عدالتوں سے لے کر سیشن عدالتوں تک ججوں کی تقرری کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مروجہ نظام میں جج کی تعیناتی کے لیے امیدواروں کی صرف یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے کہ ان کو سول اور فوجداری قانون کتنا یاد ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ججوں کی تعیناتی میں 3 چیزوں کو مدنظر رکھا جائے۔
مدثر خالد عباسی کے مطابق جج کی تعیناتی کے لیے ایک ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کہ ان کا قانون کے بارے میں علم کتنا اپ ٹو ڈیٹ ہے، دوسرے ان کی شخصی دیانتداری جس کے اندر یہ بھی دیکھا جائے کہ ان کے اندر قوت فیصلہ ہے بھی کہ نہیں اور تیسرے نمبر پر امیدواروں کا کسی ماہر نفسیات سے معائنہ کروا کر تعیناتی کے لیے منظور کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق ماہر نفسیات سے معائنے میں یہ بات بھی دیکھی جائے کہ بطور جج تعیناتی کے امیدوار میں بہادری کا تناسب کیا ہے اور اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے۔
نظام انصاف کی درستگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے مدثر عباسی نے کہا کہ ججوں کو لمبے چوڑے فیصلے نہیں لکھنے چاہییں۔ بعض جج فیصلوں میں کتابیں لکھ ڈالتے ہیں، اس سے پرہیز کرنی چاہیے، فیصلے مختصر لکھے جانے چاہییں۔ ججوں کو صرف وہی فیصلہ کرنا چاہیے جو قانون میں لکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جج جب قانون سے ہٹ کر توجیہات میں پڑ جاتے ہیں تو وہ انصاف کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ کوئی ایسا نظام بھی لایا جانا چاہیے جس سے پتہ چل سکے کہ کوئی مقدمہ قابلِ سماعت ہے بھی یا نہیں۔
مدثر خالد عباسی نے کہا کہ یہاں 20، 20 سالوں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جس عدالت میں وہ مقدمہ زیر التوا تھا وہ عدالت اس کو سننے کی مجاز ہی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ جھوٹے مقدمات میں کثرت کے ساتھ جرمانے عائد کرنے ضرورت ہے جس سے جھوٹے مقدمات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے اور انصاف کا متبادل نظام اے ڈی آر یا ثالثی نظام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارا نظام انصاف فیصلے پر زور دیتا ہے انصاف کی فراہمی پر نہیں:ایڈووکیٹ مبین قاضی
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل مبین قاضی نے بھی وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نظام انصاف کی بہتری کے لیے اے ڈی آر یا ثالثی نظام کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مغربی ممالک میں یہی نظام بہت کامیابی سے چل رہا ہے اور نتائج دے رہا ہے۔
مبین قاضی نے کہا کہ ہمارا نظام انصاف مقدمے کا فیصلہ کرنے پر زور دیتا ہے مگر انصاف کی فراہمی پر زور نہیں دیتا، صرف سپریم کورٹ کے پاس کچھ اختیارات ایسے ہیں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ انصاف کریں۔
انھوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کسی مقدمے میں الزامات غلط ثابت ہو جائیں تو جس پر الزام لگایا گیا ہو اس کو ہرجانہ ادا کیا جاتا ہے جو کہ الزام لگانے والے کو بھرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص کئی سالوں کے بعد اپنا حق وصول کر پایا تو اسے انصاف تو نہیں ملا۔ انصاف تو تب ملے گا جب اسے اس سارے عرصے کی اذیت کی قیمت بھی ملے۔
مبین قاضی نے کہا کہ جب تک جھوٹے مقدمات دائر کرنے والوں پر جرمانے عائد نہیں ہوں گے تب تک بے کار مقدمے بازی ختم نہیں ہو گی۔ ہمارے نظام انصاف میں تکنیکی چیزوں کو بہت فوقیت دی گئی ہے کہ یہ ہو گا تو آپ کو جواب دعوٰی کا حق ختم ہو جائے گا، ایسا ہو گا تو آپ کا شہادت کا حق ختم ہو جائے گا۔ ہمارے نظام انصاف میں تکنیکی چیزیں اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ہرجانے کا کوئی نظام رائج نہیں۔
مبین قاضی نے کہا کہ ہمارے نظام انصاف میں تہیں اتنی زیادہ ہیں جو صورت حال کو بہت پیچیدہ کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر زمینوں سے متعلق مقدمات جو محکمہ مال کے انتظامی افسران سنتے ہیں، وہاں ہر افسر کے پاس نہ صرف مقدمہ سننے بلکہ اس پر نظرثانی کا اختیار بھی ہوتا ہے، وہ ایک مقدمے کا فیصلہ کرتا ہے، پھر نظر ثانی کرتا ہے، اس کے حکم کے خلاف اپیل پھر اس پر نظر ثانی، اس طرح کئی سال بیت جاتے ہیں جب ایک فیصلہ بالآخر ہو جاتا ہے اس کے کچھ سالوں بعد پتہ چلتا ہے کہ نیا آفیسر آیا ہے اس نے پرانا فیصلہ ختم کر دیا ہے اور پھر سے کوئی شخص دس پندرہ سال مقدمے بازی کی نظر ہو جاتا ہے۔
ان کے مطابق اسی طرح ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ایک بے کار پروسیجر ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ جانے میں یہ امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔
مبین قاضی نے کہا کہ مقدمات کے جلد حل کے لیے سپیشلائزڈ ٹربیونلز بنائے جانے کی ضرورت ہے جہاں قانون کی مختلف جہتوں میں تخصص رکھنے والے ججز فیصلے کریں۔ اس کے علاوہ گراس روٹ لیول پر ثالثی کے نظام کو مضبوط اور مربوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔