اگر تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت ہوتی، اس کی جڑیں عوام میں ہوتیں، اس نے اپنے برتے پر الیکشن لڑا ہوتا، اس کا اپنے لیڈر کی ذات کے علاوہ بھی کوئی منشور ہوتا توکہا جا سکتا تھا کہ تحریک انصاف اپنے خود ساختہ عتاب سے جب بھی نکلے گی، عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر اس کا استقبال کرے گا، ایک زمانہ اس کی آواز پر لبیک کہے گا اور وہ ایک زقند بھر کر عہد رفتہ کی منزل پر پہنچ جائیں گے لیکن یہ سب اب ممکن نظر نہیں آتا۔
عمران خان ایک ہی دن میں شہرت کی، تکبر کی، چٹان سے پھسل کر پاتال میں آ گرے ہیں۔ اب ان کے پاس زوال کے راستے پر مزید لڑھکتے چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب زوال ہی زوال ہے۔ اس رستے میں کہیں کوئی شجرِ مہربان نہیں، کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کشتی میں سوراخ کرنے والے تو اب بہتیرے ہیں مگر اس نیا کو پار چڑھانے والا دور دور تک کوئی نہیں۔ اب مسلسل تنزلی ہے جو تحریک انصاف کو درپیش ہے۔ اب ایک ون پیج کے تابناک ماضی کے سوا ان کے کشکول میں کچھ نہیں۔ ہمیں ادراک ہونا چاہئیے کہ گملوں میں لگے پودے کبھی درخت نہیں بنتے، ان کی جڑیں کبھی زمیں میں نہیں اترتیں۔
اس بات کو تسلیم کرناچاہیے کہ اقتدار جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ مظلومیت کا ووٹ انہوں نے خوب کیش کیا۔ کبھی امریکا کے غلط ’سائفر‘ لہرا کر انہوں نے دلیری کے ریکارڈ قائم کیے، کبھی فوج کے سربراہ کو گالیاں دے کر انہوں نے داد وصول کی، کبھی اپنے مبینہ قتل کا الزام کسی نامعلوم پر لگایا، کبھی جنرل باجوہ کے حوالے سے کوئی فرضی داستان گھڑی۔
اس دلیری کو مہمیز ان کے سوشل میڈیا نے عطا کی۔ سوشل میڈیا خان صاحب کی اپنی وکٹ اور اپنا میدان ہے۔ اس میں انہیں شکست دینا بہت مشکل ہے۔ جس دلیری سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جھوٹ بول سکتا ہے اس دلیری سے تو لوگوں کو سچ بولنا نصیب نہیں ہوتا۔
اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد، خان صاحب کی مقبولیت صرف سوشل میڈیا ہی کی مرہون منت نہیں تھی، اصل مسئلہ ہائی برڈ نظام کی باقیات کا تھا جو ہرجگہ موجود تھیں۔ ان باقیات کے وجود کی بڑی وجہ وہ ’ففتھ جنریشن وار‘ تھی جس میں ہر شخص کو یقین دلایا گیا کہ خان کے سوا اس ملک کا مسیحا کوئی نہیں۔
یہ صدا ہم نے میڈیا سے بھی کئی برس تک مسلسل بلند ہوتے سنی۔ عدل کے ایوان بھی اسی سازش میں لگے رہے، ادارے سے بھی ’خان تیرے جاں نثار، بے شمار بے شمار‘ کی آوازیں اٹھنے لگیں، جوانوں کی برسوں تک یہی تربیت کی گئی، گھر والوں تک کو بھی یہی پیغام پہنچایا گیا۔ وہی خان کی سب سے بڑی سپورٹ بن گئے۔
لوگوں کی برسوں ذہن سازی کی گئی اور خان کی شخصیت کا ہوا بنا کر پیش کیا گیا۔ اب یہی ’ففتھ جنریشن وار‘ کے جہادی اور ادارے کے لوگوں کے گھر والے ہی ادارے کے لیے مشکل بن گئے۔ عام عوام جو مرضی کہتے رہیں، انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر گھر والوں کی بات کہاں ٹالی جا سکتی ہے۔ جنرل باجوہ تو ملک کی معاشی کشتی ڈوبتے دیکھ کر، اپنی لائف جیکٹ پہن کر کشتی سے کود گئے مگر ادارے کے لوگوں کے اہل خانہ جن کی مدت سے ذہن سازی کی گئی تھی، اپنے آپ کو اتنی جلد تبدیل نہیں کر سکے۔ ادارے پر سب سے زیادہ پریشر اہل خانہ ہی کا تھا۔
ادارے میں بیٹھے لوگ عمران خان کے اس قدر دل دادہ ہوئے کہ بھول گئے، ان کے بال بچوں کا رزق کہاں سے آتا ہے، ان کے تمغے کسی خان کے مرہون منت نہیں، ان کی شجاعت کی داستانیں سنانے کے لیے عمران خان ناگزیر نہیں۔
لیکن نو مئی دو ہزار تئیس کے یوم سیاہ پر جو کچھ ہوا، اس سے کم از کم ادارے میں خان کے ہمدردوں اور ان کے گھر والوں کی کمال اصلاح ہوئی ہے۔ جب انہوں نے اپنے ہی گھروں کو خان کے تربیت یافتہ متشدد لوگوں کے ہاتھوں جلتے دیکھا، اپنے ہی شہیدوں کی یادگاروں کو نذر آتش ہوتے دیکھا، اپنے ہی شجاعت کے نشانوں کو پاؤں تلے روندتے دیکھا تو انہیں کم از کم عقل آ گئی۔ اب وہ چاہیں بھی تو نو مئی کے بعد عمران خان کی حمایت نہیں کر سکتے۔ خود سوچیے! کون ان بلوائیوں کی حمایت کر سکتا ہے جو آپ کے اپنے چمن کو آگ لگا دیں۔
نو مئی کے بعد عمران خان کے حامی اور سہولت کار بڑی حد تک پسپا ہو چکے ہیں۔ یہ پسپائی نظریاتی محاذ پر بھی ہے، اخلاقی سطح پر بھی ہے اور سیاسی میدان بھی اسی پسپائی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب سب کو پتہ ہے کہ اس سماج میں جو شخص بھی عمران خان کی حمایت کرے گا وہ شہیدوں کے لہو سے غداری کرے گا، وہ غازیوں کی شجاعت کی داستانوں کو ملیامیٹ کرے گا۔ وہ نفرت کی داستان رقم کرے گا، وہ وطن کے ساتھ وفا نہیں کرے گا۔
تحریک انصاف کے اقتدار سے نکلنے کے بعد کے سفر کو دیکھیں تو شہرت کے عروج سے زمین پر گرنے کا منظر ہم نے دیکھا۔ اب ہر روز عمران خان کسی نہ کسی غیرملکی ادارے سے التجا کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ ’سیم پیج‘ پر لایا جائے لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ ’سیم پیج‘ والا صفحہ ہی نہیں، اس ہائی برڈ نظام والی کتاب ہی پھٹ چکی ہے۔
اب عمران خان کو سیاست اپنے بل بوتے پر کرنا ہو گی لیکن اس کی خان صاحب کو عادت نہیں ہے۔ سیاسی میدان میں جب وہ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مقابلہ کریں گے تو ان کے دامن میں سوائے انتشار، انتقام اور نفرت کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی نو مئی کے بعد بیانیے کی جنگ میں اب عمران خان کے پاس بچا ہی کیا ہے۔ خوف کے مارے سر پر دھری الٹی بالٹی اور چند لوٹے!