گزشتہ روز (15 دسمبر کو) بھارتی صوبے (ریاست) بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ایک نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ واقعہ ہوا۔ سرکاری سطح پر حال ہی میں تعینات ہونے والے ’آیوش Ayush‘ ڈاکٹرں کو تقررنامے دینے کی تقریب جاری تھی۔ ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر نصرت پروین کو تقرر نامہ ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بہار کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے قریبی اتحادی نتیش کمار نے اچانک ہاتھ بڑھا کر خاتون کے چہرے پر موجود نقاب کو باقاعدہ نوچ کر نیچے کردیا۔
مسلمان ڈاکٹر نے نقاب اچھے سے لیا ہوا تھا، اس لیے ہلکا سا کھینچنے سے نیچے نہیں ہوا، تو نتیش کمار نے باقاعدہ اسے جھٹکے سے نیچے کرکے خاتون کے چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ ویڈیو کلپ میں صاف نظر آ رہا ہے کہ اسٹیج پر دائیں بائیں کھڑے دو تین لوگ نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے دانت نکال رہے ہیں، تاہم ڈپٹی وزیراعلیٰ بہار نے وزیراعلیٰ کو منع کرنے کی کوشش کی، مگر نتیش کمار نے اس کی ایک نہ سنی۔
اس واقعے پر کل سے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی خاصا شور مچا ہوا ہے۔ بہار میں اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل نے اسے نہایت شرمناک اور غلط حرکت قرار دیا ہے۔ کانگریس نے نتیش کمار کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاہم بہار کی بی جے پی نے نتیش کمار کی اس جارحانہ اور نامناسب حرکت کا دفاع کیا ہےاور اس کے لیے کئی کمزور، بچکانہ سے عذر تراشے ہیں۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں مذہبی شناخت، لباس کی آزادی اور سیاسی بیانیے پہلے سے ہی حساس موضوعات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پٹنہ، بہار والا واقعہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
بھارت میں اسلامو فوبیا، مسلم مخالف جذبات، مسلمانوں کو ہرٹ کرنے کے لیے کی گئی قانون سازی، مسلمان حکمرانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں، پاکستان دشمن فلموں اور مسلمان خواتین کے حجاب کو نشانہ بنانے کی کوششیں کئی برسوں سے ہو رہی ہیں۔ نتیش کمار وزیراعلیٰ بہار نے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا ہے اور یہ محض ایک انفرادی اقدام نہیں بلکہ ایک شرمناک، افسوسناک مسلم مخالف کمپین کا حصہ ہی ہے۔ اس اقدام کے دفاع یا اسے کم دکھانے کے لیے جو کچھ کہا جارہا ہے، اس کا تجزیہ کرتے ہیں مگر پہلے یہ جان لیں کہ ’آیوش Ayush‘ ڈاکٹرز کون ہیں؟
انڈیا میں ’آیوش Ayush‘ کا مطلب متبادل طب والے ڈاکٹرز ہیں۔ ان میں اے (A) سے مراد ایورویدک، وائی سے یوگا اور نیچروپیتھی، یو سے مراد یونانی طب، ایس سے سدھا اور ایچ سے ہومیوپیتھی مراد ہے۔ انڈیا میں ان متبادل طب کے علوم کے ماہرین کو ’آیوش Ayush‘ ڈاکٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ ایم بی بی ایس نہیں مگر بہرحال انہیں ڈاکٹر ہی مانا اور کہا جاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ان کی باقاعدہ سیٹیں ہیں اور یہ سرکاری ملازم ہیں۔ اب آتے ہیں اس واقعے کی جانب:
کیا یہ اسلاموفوبیا کا حصہ ہے؟
جی ہاں، اور اسی زاویے سے دیکھا جانا چاہیے۔ بھارت میں گزشتہ چند برسوں سے مسلمان شناخت، لباس، عبادت اور زبان سب کچھ سیاسی نشانے پر ہے۔ کبھی حجاب پر پابندی، کبھی داڑھی پر طنز، کبھی مسجدوں پر سروے، اور کبھی نقاب سرکانے جیسی ’حادثاتی‘ حرکات۔ یہ سب واقعات ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک مسلسل فضا کا حصہ ہیں، جس میں مسلمان شناخت کو غیر معمولی، قابلِ اعتراض اور قابلِ کنٹرول سمجھا جا رہا ہے۔ نتیش کمار کا عمل اسی فضا میں معنی خیز بن جاتا ہے۔
کیا یہ بی جے پی کے مسلم مخالف بیانیے کا اثر ہے؟
اس سوال کا جواب بھی ہاں میں بنتا ہے، نتیش کمار بی جے پی کے سب سے اہم اتحادی ہیں، لوک سبھا میں ان کی نشستوں کی بنیاد پر بی جے پی حکومت قائم ہے جبکہ ابھی چند ہفتے قبل ہونے والے بہار کے الیکشن میں مودی جی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے نتیش کمار کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا۔ دونوں جماعتوں نے اپنے نعروں، ایجنڈے اور حتیٰ کہ امیدواروں میں بھی مسلمانوں کو نظرانداز کیا۔
یہ کہنا مشکل نہیں کہ بہار میں نتیش کمار اب بی جے پی کے سیاسی دائرے کے اندر سانس لے رہے ہیں۔ بی جے پی نے گزشتہ برسوں میں ایک واضح پیغام دیا ہے کہ مسلمان ووٹ اب فیصلہ کن نہیں رہا، بلکہ اکثریتی ہندو جذبات ہی اصل سرمایہ ہیں۔ جب اتحادی بھی اسی فضا میں سیاست کرنے لگیں، تو حساسیت مر جاتی ہے۔ نتیش کمار کا یہ بلنڈر اسی بدلی ہوئی سیاسی فضا کا شاخسانہ لگتا ہے، جہاں اب یہ سوچ بھی نہیں آتی کہ کسی مسلمان خاتون کے نقاب پر ہاتھ ڈالنے کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔
کیا نتیش کمار کا یہ عمل محض ایک غلط فہمی تھی؟
اسے غلط فہمی یا کوئی بے ضرر حرکت کہنا زیادتی ہے۔ یہ صریحاً نجی حدود کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایک طاقتور وزیراعلیٰ کا کسی خاتون خصوصاً ایک مسلمان ڈاکٹرکے لباس کو عوامی تقریب میں ہاتھ لگانا عدم مساوات، تکبر اور ریاستی جبر کی واضح علامت ہے۔ اگر یہی حرکت کسی بی جے پی لیڈر نے کی ہوتی تو اسے آج ’فاشزم‘ کہا جا رہا ہوتا۔
نتیش کمار کے حامی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ سیکولر آدمی ہیں اور انہوں نے صوبے میں خواتین کے لیے کام کیا ہے۔ بھئی سیکولرازم نیت سے نہیں، عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ کسی عورت کے مذہبی لباس کو زبردستی ہٹانا سیکولرازم نہیں، کنٹرول اور تحقیر ہے۔ نیت اچھی ہو تو ہاتھ نہیں اٹھتا۔
حکمران جماعت بی جے پی کا کیا ردعمل رہا؟
مرکزی بی جے پی نے تو اس پر کچھ کہنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ بہار بی جے پی نے دفاعی بیانات دیے۔ انہوں نے کہاکہ معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، اپوزیشن سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے، نتیش کمار اقلیتوں کے حقوق کے حامی رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ بی جے پی بہار نے نقاب یا مذہبی آزادی پر بات کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا۔ یہ خاموشی سیاسی مجبوری بھی ہے اور بیانیاتی حکمتِ عملی بھی۔
مرکزی بی جے پی کی خاموشی اتفاق نہیں۔ یہ خاموشی دراصل ایک پیغام ہے کہ اس طرح کے واقعات اب ناقابلِ دفاع نہیں رہے۔ اتحادیوں سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ نئی سیاسی لغت سیکھ لیں۔ مذہبی حساسیت اب انتخابی خطرہ نہیں رہی۔ اگر بی جے پی واقعی اسے سنگین سمجھتی، تو ایک جملہ کافی تھا۔ مگر وہ جملہ نہیں آیا۔
کیا یہ واقعہ کرناٹکا میں حجاب پابندی کی کڑی ہے؟
بعض بھارتی مسلمان سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے یہ بات کی ہے کہ جس طرح بی جے پی نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کی کوشش کی تھی اور اسکولوں میں بچیوں کو زبردستی حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا تھا، پٹنہ والا واقعہ بھی اسی تناظر میں ہے۔
وی نیوز کے قارئین کو بتاتا چلوں کہ 2002 میں یہ بڑا ایشو بنا تھا تب بھارتی صوبے کرناٹکا (کرناٹک) میں بی جے پی کی صوبائی حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی۔ اسکولوں میں ٹیچرز کو مجبور کیا کہ وہ کلاس روم میں طالبات کو اپنے نقاب اتارنے پر مجبور کریں۔ بی جے پی کے نوجوانوں نے گلے میں زعفرانی مفلر ڈال کر اسکولوں میں حجاب کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ دلائل یہ دیے گئے کہ تعلیمی ادارے ’مذہبی طور پر غیر جانبدار‘ ہونے چاہییں اور یونیفارم کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ حقیقت یہ تھی کہ پابندی کا نشانہ صرف مسلمان طالبات بنیں، کسی دوسری مذہبی علامت کو عملی طور پر نہیں چھیڑا گیا۔
یوں پورے بھارت میں حجاب کو ’تعلیم بمقابلہ مذہب‘ کے جھوٹے تضاد میں بدل دیا گیا۔ یہ معاملہ عدالتوں میں گیا مگر بی جے پی کے دور میں بھارتی سپریم کورٹ کا رویہ بھی مایوس کن رہا ہے۔
اکتوبر 2022 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس معاملے پر منقسم فیصلہ دیا۔
دو ججوں نے دو متضاد آرا دیں، کوئی حتمی، واضح فیصلہ سامنے نہیں آیا، معاملہ عملی طور پر ریاستوں اور اداروں پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ قانونی ابہام خود اس بات کا ثبوت تھا کہ ریاست نے ایک مذہبی مسئلے کو دانستہ طور پر غیر واضح اور متنازع بنا کر چھوڑ دیا۔
بعد میں 2023 میں کرناٹک میں کانگریس کی حکومت آ گئی تو انہوں نے یہ پالیسی تبدیل کردی۔
بی جے پی کا ہندوستان اور مسلمانوں کے لیے خدشات
کرناٹک حجاب تنازع کے دوران وزیراعظم مودی نے خاموشی اختیار کی۔ یہ خاموشی دراصل سیاسی تائید سمجھی گئی، کیونکہ مرکز نے ریاستی اقدام کو نہ روکا، نہ ہی اس پر تنقید کی۔ یاد رہے کہ بھارتی سیاست میں یہ اصول سمجھا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی خاموشی اکثر رضامندی کا اشارہ ہوتی ہے۔
بی جے پی اور اس کے نظریاتی حلقوں کی بنیادی لائن یہ رہی ہے کہ حجاب ایک مذہبی علامت نہیں بلکہ ’رجعت پسندی‘ کی نشانی ہے، یہ ’خواتین کو پیچھے رکھنے‘ کا آلہ ہے اور ریاستی یا تعلیمی اداروں میں اس کی اجازت ’سیکولرازم کے خلاف‘ ہے۔ اس میں خوفناک تضاد یہ ہے کہ ایک طرف بی جے پی خود مذہبی علامات (تلک، جے شری رام، بھگوا) کو سیاست میں فخر سے استعمال کرتی ہے، مگر دوسری طرف مسلمان عورت کے حجاب کو مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔
یہی تضاد نتیش کمار کے عمل کو محض ذاتی لغزش کے بجائے بی جے پی کے غالب بیانیے کا سایہ بنا دیتا ہے۔ وزیراعظم مودی، امیت شاہ اور بی جے پی کی مرکزی قیادت پٹنہ والے واقعے پر گنگ بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ یہ معاملہ غیر ضروری بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے یہ حقیقی طور پر ایک بڑا واقعہ ہے اور اس پر احتجاج اور تنقید اس لیے بھی ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر جگہ بی جے پی اور اس کی اتحادی حکومتوں کے وزیراعلیٰ، گورنر، وزرا وغیرہ مسلمان طالبات، ٹیچرز اور سرکاری ملازم مسلم خواتین کے نقاب نوچتے نظر آئیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













