اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کی تازہ لہر کے درمیان معاشی ابتری سے دوچار ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی سے وابستہ معیشت میں بہتری کی امید حکومت کی ناکامی کا اشتہار بن چکی ہے۔ ایسے میں اب ساری توقعات آئی ایم ایف سے وابستہ ہیں کہ اس کی ’سند اعتماد‘ دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں، بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور ان دوست ممالک کا تذبذب دور کر سکے گی جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور پاکستان کی ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کے خواہاں ہیں۔
بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد نویں اقتصادی جائزے کے لیے پاکستان میں ہے، اور حکومت پاکستان اس وقت ہر شرط پر آئی ایم ایف کے معطل پروگرام کی بحالی چاہتی ہے۔ تاہم ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ بات کہاں جا کر ٹھہرے گی۔ اس لیے کہ اگر نئی شرائط پر معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو بھی پاکستان کو آئی ایم ایف کی قسط مارچ تک ملے گی۔
تاہم سوال یہ ہے کہ اگر خاکم بدہن آئی ایم ایف کی بیل منڈیر نہ چڑھی تو کیا ہوگا؟ نیز یہ کہ وہ کون سا راستہ ہے جو پاکستان کو اس معاشی بحران سے بچا سکتا ہے؟ آئندہ سطور میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ سے پیوستہ سال دسمبر 2021ء میں شبر زیدی نے انکشاف کیا تھا کہ ’پاکستان دیوالیہ ہوگیا ہے‘، چوں کہ یہ بات ایک ماہر مالیات اور ایف بی آر کے سابق سربراہ نے کی تھی،اس لیے یہ ایشو موضوع بحث بن گیا تھا، آج جب کہ دو ہزار اکیس کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید گر چکی ہے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا نہ ہونے کی بحث پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ کب ہوتا ہے۔
یاد رکھیں جب کوئی ملک اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں، اور اس پر سود کی ادائیگی کرنے کا اہل نہ رہے تو وہ ملک دیوالیہ قرار پاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بدنظمی سے ساورائن ڈیفالٹ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کو ان دونوں صورتوں کا سامنا ہے۔
کسی ملک کے ڈیفالٹ یا دیوالیہ قرار پانے کی صورت میں کئی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مثلاً سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ موڈیز، فچ اور اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز جیسی ٹاپ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں ڈیفالٹ کرنے والے ملکوں کی کریڈٹ ریٹنگ کم کر دیتی ہیں۔ ریٹنگ کم ہوجانے سے اس ملک کو دوبارہ قرض لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں یا پھر زیادہ شرح سود پر قرض ملتا ہے۔
دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملکی کرنسی کی قدر تیزی سے گرتی ہے اور مہنگائی بہت تیزی سے اوپر جاتی ہے۔
کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافے کا افسوس ناک نظارہ چند سال پہلے زمبابوے اور وینزویلا میں دیکھنے کو ملا تھا، جہاں لوگ ڈبل روٹی خریدنے کے لئے بھی نوٹوں کی گڈیاں لے کر جاتے تھے، بلکہ وینزویلا کی کرنسی تو عملاً سڑکوں پر رُل رہی تھی۔
کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں تیسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اُس ملک سے جانے والا تجارتی سامان عالمی بندرگاہوں پر ضبط ہو سکتا ہے۔ بیرون ملک موجود اس کے ہوائی اور بحری جہاز قبضے میں لیے جا سکتے ہیں۔اسی طرح اگر دیوالیہ حکومت کی املاک مثلاً ہوٹل وغیرہ کسی دوسرے ملک میں ہوں تو وہ قبضے میں لی جا سکتی ہیں البتہ سفارت خانے پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بڑا نقصان عام خوف کی صورت میں جنم لیتا ہے جس کے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی عدم دستیابی پر لوگوں کی بڑی تعداد بینکوں سے رقوم نکلوانا شروع کر دیتی ہے، بینکوں کے باہر صارفین کی قطاریں لگ جاتی ہیں، لوگ اس خطرے کا بھی شکار ہوجاتے ہیں کہ کہیں حکومت ان کی رقوم پر قبضہ نہ کر لے۔ جب بہت بڑی تعداد میں لوگ بینکوں سے رقم نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور بینکوں پر رش لگ جاتا ہے، اس صورت کو ’رن آن بینک‘ کہتے ہیں۔
دیوالیہ قرار پانے کے بعد سرمایہ کاری کا ماحول تباہ ہوجاتا ہے، اس کے اثرات سے اسٹاک مارکیٹ بھی محفوظ نہیں رہتی۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار حصص کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کو محفوظ کرسکیں۔
ملک ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں چند دنوں میں اسٹاک مارکیٹ چالیس سے پچاس فیصد تک اپنی کیپٹلائزیشن کھو دیتی ہے۔ کوئی غیر ملکی بینک کسی ڈیفالٹ بینک کے لیٹر آف کریڈٹ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔نتیجتاً اس ملک کی درآمدات تقریباً رُک جاتی ہیں اور ملک کے اندر ضروری اجناس کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ جب کہ اس مجموعی صورت حال کے نتیجے میں بیروزگاری کا جن بے قابو ہوجاتا ہے حکومت اور کارپوریٹس، دونوں اپنے کاروبار کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نئی ملازمت دینے کے بجائے پہلے سے موجود ملازمین کو فارغ کرکے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سے ملک کے اندر بے روزگاری بڑھ جاتی ہے۔ان تمام عوامل کا افسوسناک نظارہ دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کی صورت حال میں کیا جاسکتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے یا باالفاظ دیگر کیا پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
میرے خیال میں پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں اختلاف و اشتراک کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ اگر سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے پانچ ماہ پہلے کا گراف دیکھیں تو وہ پاکستان کے موجودہ معاشی گراف سے ملتا جلتا ہے۔ مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔اس لیے کہ سری لنکا کے برعکس پاکستان نے چند شعبوں پر بہتر پالیسی بنائی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان فی الحال دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے بال بال بچا ہوا ہے۔پاکستان نے زراعت کے حوالے سے کھادوں کی درآمدات پر پابندی لگانے والی سری لنکا جیسی غلطی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ شدید مہنگائی کے باوجود آٹے، دال، چینی، سبزیاں ،گوشت اور دیگر غذائی ایشیا کی قلت کا سامنا نہیں ہے۔ قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن کسی حد تک قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔تاہم ماہرین معاشیات میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ تیکنیکی طور پر چاہے پاکستان دیوالیہ نہ ہوا ہو مگر پاکستان ’مورل ڈیفالٹ‘کر چکا ہے۔ تاہم دوسری طرف وہ ماہرین بھی ہیں جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بنیاد پر دیوالیہ ہونے کا امکان رد کرتے ہیں، ان کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں سو سے زائد ممالک ایسے ہیں جنہیں کرنٹ اکاونٹ خسارے کا سامنا ہے۔پھر ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل ایجنسی تکنیکی طور پر پاکستان کو دیوالیہ قرار نہیں دے سکتیں اس لیے کہ اس وقت آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ انگیج ہے ۔یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا کہ ہمارے حالات سری لنکا جیسے نہیں ہیں ہم آئی ایم ایف کے سیف زون میں ہیں۔ مگر یہ سیف زون کب تک باقی رہے گا؟ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان سمیت کمزور معیشت والے دنیا کے کئی ممالک پر بڑھتے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔ اور ایسے ملکوں کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ تقریباً درجن بھر ہے ۔
اب یہاں سب اہم سوال یہ ہے کہ آخر اس معاشی ابتری سے نجات کی کیا صورت ہے ؟ میرے مطابق اس حوالے سے فلپائن کی معاشی صورتحال کا جائزہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ سال 2005ء میں فلپائن دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔زرِمبادلہ کے ذخائر صرف تین ماہ کی درآمدات کے لیے باقی رہ گئے تھے۔ صدر نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کیا جس سے مہنگائی میں ہُوشربا اضافہ ہوگیا۔اس گھمبیر صورتحال میں فلپائنی صدر نے سیاسی مشاورت سے اس مسئلے کا ایک زبردست حل پیش کیا اور ایک آزاد معاشی ادارہ تشکیل دیا گیا، جس میں فلپائن اور دنیا بھر سے ایسے معاشی ماہرین کو شامل کیا گیا جن کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں تھا۔
یہ ادارہ عملی طور پر سیاسی مداخلت سے آزاد تھا، اور حکومتوں کے آنے جانے یا اُن کے دیگر فیصلوں کے اثر سے محفوظ تھا۔ نتیجے کے طور پر پالیسیوں میں استحکام آیا، سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا اور اگلے ہی سال 2006ء میں صرف ایک سال کے عرصے میں فلپائن نے ناصرف آئی ایم ایف کا قرض واپس کر دیا بلکہ اس کے بعد سے آج تک وہ کبھی بھی آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں گیا۔
فلپائن کی اس مثال کے ہوتے پاکستان کو بھی اس وقت میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے۔ ایسا میثاق جس میں تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بھلا کر ایک آزاد معاشی ادارے کے قیام کی منظوری دیں جسے آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہو ، اس ٹیم میں ماہرین کی تقرری بھی سیاسی مداخلت سے آزاد ہو تاکہ حکومتیں تبدیل ہونے سے ان کی پالیسیاں تبدیل نہ ہوں۔ایسے ادارے کا قیام پاکستان کے حالات بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور پاکستان ممکنہ طور پر سری لنکا بننے سے بچ سکتا ہے۔