منرو ڈاکٹرائن اور اس کی بگڑتی شکلیں

جمعرات 18 دسمبر 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب صدر ٹرمپ نے پہلی بار ایک ہی سانس میں کینیڈا، گرین لینڈ اور پاناما کینال پر امریکی حق جتایا تو بظاہر یوں لگا کہ ہر مہم جو امریکی صدر کی طرح نو منتخب ٹرمپ بھی اپنے اہداف بتا رہے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ واضح ہونا شروع ہوا کہ وہ توسیع نہیں تحدید کی بات کررہے ہیں۔ چنانچہ عالمی میڈیا میں ذکر شروع ہوگیا ’منرو ڈاکٹرائن‘ کا۔ آپ کو یاد ہوگا تین ماہ قبل اپنے کالم ’بگرام کا ٹرک‘ میں ہم نے عرض کیا تھا کہ ٹرمپ کو بگرام ایئربیس میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو چپکے سے یورپ، کوریا اور جاپان سے انخلا کی تیاری فرما رہے ہیں۔

وہی بات اب ٹرمپ انتظامیہ کی اس قومی سلامتی حکمت عملی والی دستاویز میں صاف صاف کہہ دی گئی ہے جو ہفتہ دس دن قبل ہی جاری ہوئی ہے۔ یوں تحدید کی یہ حکمت عملی اب آفیشل بھی ہوگئی ہے۔ سو منرو ڈاکٹرائن کا ذکر اب دنیا بھر کے میڈیا میں پورے زور و شور سے ہو رہا ہے۔ ویب کے اس دور میں کاپی پیسٹنگ صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا میں بھی زوروں پر ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ سوشل میڈیا متن من و عن اپنے نام کرلیا جاتا ہے جبکہ مین اسٹریم میڈیا میں متن کو کچھ ردوبدل سے بھی گزار دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک سائڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ اگر کسی بڑے غیرملکی اخبار نے کچھ غلط لکھ دیا تو وہ غلط دنیا بھر میں کاپی پیسٹ ہوجاتا ہے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ منرو ڈاکٹرائن کی وہ گمراہ کن تشریح کس نے کی جو ہر طرف پھیل گئی مگر وہ غلط تشریح تواتر کے ساتھ ہر جگہ دیکھ ضرور رہے ہیں۔

منرو ڈاکٹرائن کی غلط تشریح یہ پھیلائی جارہی ہے کہ 1823 میں اس وقت کے امریکی صدر جیمز منرو نے یہ تصور پیش کیاکہ براعظم امریکہ بیرونی طاقتوں کے لیے نوگو ایریا ہوگا۔ یعنی یہاں انہیں قدم رکھنے کی تو اجازت ہوگی مگر جمانے کا حق نہی دیا جائے گا۔ چنانچہ اس ڈاکٹرائن کے ذریعے امریکا نے اپنے براعظم میں تو دوسروں کا داخلہ ممنوع کردیا مگر خود ہر براعظم میں اس طرح جا گھسا کہ مستقل فوجی اڈے بنا لیے۔ یعنی اپنے علاقے میں دوسروں کی مداخلت ممنوع مگر ان کے علاقوں تک امریکی مداخلت کا جواز منرو ڈاکٹرائن کا خلاصہ ہے۔ یہ منرو ڈاکٹرائن کی گمراہ کن تشریح ہے، اس ڈاکٹرائن میں ایسا کوئی واہیات تصور پیش نہیں کیا گیا تھا۔

فی الحقیقت منرو ڈاکٹرائن کے تین بنیادی پوائنٹ تھے۔ جو صدر جیمز منرو نے کانگریس کے نام اپنے ساتویں پیغام میں لکھ کر بھیجے تھے۔ وہ ڈاکٹرائن ایسے دور میں آئی تھی جب لاطینی امریکا کے کئی ممالک سپینش اور پرتگالی قبضے سے نئے نئے آزاد ہوئے تھے۔ چنانچہ منرو ڈاکٹرائن کا پہلا پوائنٹ یہ تھا کہ سپینش اور پرتگیز ایمپائرز کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ مستقبل میں لاطینی ممالک پر ’اپنا علاقہ‘ ہونے کا حق پیش کریں، یہ درحقیقت مقبوضہ ممالک تھے جو اب آزاد ہیں۔ دوسرا پوائنٹ یہ تھا کہ یورپین ممالک کو یہ حق بھی نہ ہوگا کہ یہ کسی بھی مقصد کے تحت اپنی فوجیں اس علاقے میں بھیجیں۔ سب سے دلچسپ اور نہایت قابل توجہ پوائنٹ تیسرا تھا۔ اس میں گویا وعدہ کیا گیا تھا کہ امریکا بھی یورپ کی جنگوں اور ان کی سیکیورٹی میں دخل نہیں دے گا۔ گویا منرو ڈاکٹرائن یہ کہہ رہی تھی کہ نہ تو یورپ ہماری حدود میں قدم رکھے گی اور نہ ہی ہم یورپ میں دخل دیں گے۔

ایک بہت ہی اہم بات یہ کہ منرو ڈاکٹرائن میں کوئی ایسا بین السطور اشارہ تک نہ تھا جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ امریکا لاطینی ممالک کو اپنا محکوم بنانے کی کوئی سوچ رکھتا تھا۔ اور اس زمانے میں امریکا کوئی عالمی طاقت تھا بھی نہیں۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ آگے چل کر منرو ڈاکٹرائن کا حلیہ ہی بگڑ گیا؟۔ منرو ڈاکٹرائن کے بعد کی صدی میں ایک طویل عرصہ تو امریکا اسی جغرافیے پر مکمل کنٹرول اور قبضے کی کوششوں میں الجھا رہا جسے آج ہم یونائیٹڈ اسٹیٹس کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی ریڈ انڈینز کا خاتمہ اور کیلی فورنیا وغیرہ پر قبضہ۔ اس سب میں امریکا کو لگ بھگ 80 برس لگے۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوا تو ایک چیلنج اب بھی بدستور موجود تھا، اور وہ یہ کہ کیوبا اور پورٹوریکو پر اب بھی اسپین کے قبضے میں تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ منرو ڈاکٹرائن کے دائرہ اثر میں موجود آزاد لاطینی ممالک تو محفوظ تھے مگر خطے میں سپینش ایمپائر اب بھی حاضر ناظر تھی۔

اسپین کو کک آؤٹ کرنے کے لیے امریکا کو کوئی بہانہ درکار تھا۔ اور یہ بہانہ اسے کیوبا میں ہونے والی بغاوت نے فراہم کردیا۔ جس کے نتیجے میں 1898 میں اسپین اور امریکا کی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں امریکا نے اسپین کو صرف کیوبا اور پورٹوریکو سے ہی نہیں نکالا بلکہ ایشیا پیسفک میں گوام اور فلپائن سے بھی چلتا کرکے وہاں قبضے جما لیے۔ سو یہ جو کیوبا میں گوانتانامو بے، ایشیا پیسفک میں گوام اب بھی امریکی قبضے میں ہیں اور فلپائن پر بھی امریکا کا گہرا اثر بدستور موجود ہے، یہ سب اسی جنگ کی باقیات ہیں۔

اسپین سے امریکا فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا، اور وہ یہ کہ 1902 میں برطانیہ اور فرانس ساؤتھ امریکا میں گھس آئے اور وینزویلا پر بمباری شروع کردی۔ وجہ اس کی یہ بنی تھی وینزویلا ان دونوں ممالک کا مقروض تھا اور وینزویلا کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی رک گئی تھی، چنانچہ اس وقت کے امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے مداخلت کرتے ہوئے وہ تاریخی اصطلاح استعمال کی جو آج بھی جیوپالیٹکس میں امریکہ کے لیے بطور طعنہ مستعمل ہے۔

روزویلٹ نے کہا تھا:

’اس علاقے کے پولیس مین صرف ہم ہیں، آپ کو ہم سے بات کرنی ہوگی، شکایات پر کارروائی ہم کریں گے، کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہاں مداخلت کرے۔‘

یوں اصل منرو ڈاکٹرائن کی شکل اب یہ بن گئی کہ براعظم امریکا میں تو کسی کو مداخلت کا حق نہ تھا جبکہ خود امریکا فلپائن تک مداخلت کرچکا تھا۔ اور ساتھ ہی شروع ہوگیا لاطینی امریکا کے بعض ممالک پر امریکا کے براہ راست قبضے اور بعض میں رجیم چینج کا عمل۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب امریکا اپنے براعظم کا محض پولیس مین نہیں بلکہ داداگیر بھی تھا۔

ایسے میں آیا ایک اور روزویلٹ یعنی فرینکلن روزویلٹ کا دور، جو 1933 میں شروع ہوا۔ فرینکلن روزویلٹ اپنے دور اقتدار کے پہلے ہی سال لائے ایک تاریخی خوشخبری۔ یہ خوشخبری ’اچھا پڑوسی پالیسی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس کے تحت امریکا نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ اپنے خطے کے ممالک سے مخاصمت کی بجائے دوستانہ تعلقات کی راہ پر چلے گا، کسی کو بھی تنگ نہیں کرےگا اور اچھا پڑوسی ثابت ہوگا۔

مگر آہ! ایک بار پھر نئی مصیبت کھڑی ہوگئی، اور وہ بھی نہایت غیر معمولی۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ جس کے دوران پرل ہاربر پر بھی حملہ ہوگیا۔ دوسری جنگ عظیم تو جرمنی، جاپان اور اٹلی کی شکست پر ختم ہوگئی مگر برطانیہ کی عالمی چوہدراہٹ بھی ساتھ لے گئی۔ اب امریکا واحد بڑا ملک تھا جس کے شہر ہی نہیں معیشت بھی اس جنگ عظیم سے مکمل محفوظ رہے تھے۔ سو فرینکلن روزویلٹ کی اچھا پڑوسی پالیسی گئی چولہے میں۔ اور امریکا اپنے براعظم کے ساتھ ساتھ یورپ کا بھی پولیس مین بن گیا۔ یعنی یہ بھائی صاحب ایس ایچ او سے سیدھا ایس ایس پی بن گئے۔ اور جب آگے چل کر سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہوگیا تو امریکا 30 سال کے لیے پوری دنیا کا آئی جی ہوگیا۔

آج کی تاریخ میں ہم اس دور میں کھڑے ہیں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی حکمت عملی اعلان کررہی ہے کہ آئی جی نے بدلتی دنیا میں ایس ایچ او لیول پر تنزلی قبول کرلی ہے۔ یعنی ٹرمپ نے قبول کرلیا ہے کہ امریکا واپس اس دور میں پہنچ گیا ہے جہاں اس کی کل فکر بس یہ تھی کہ کوئی براعظم امریکا میں نہ گھس آئے۔ لاطینی ممالک پر رعب جمانے کے لیے اس نے وینزویلا کو اپنی نیوی کی مدد سے گھیر رکھا ہے۔ مگر بحیرہ احمر میں حوثیوں نے جو نفسیاتی خوف مسلط کیا تھا، وہ شاید پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ کہنے کو ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ لاطینی ممالک میں کسی دوسری طاقت کا کوئی بھی انفراسٹرکچر نہیں رہنے دے گا، مگر عالمی تجزیہ کار تو اس سے بہت کم درجے کی یہ چیز دیکھنے کو بیتاب ہیں کہ جو بحیرہ احمر میں حوثیوں سے مار کھا کر بھاگا ہے اس پر بحر اوقیانوس میں کیا گزرتی ہے؟

جو ہونا ہے وہ تو وقت ہی بتا پائے گا مگر جو پچھلے 2 ماہ میں ہوچکا ہے وہ یہ ہے کہ ابھی وینزویلا پر حملہ شروع نہیں ہوا اور امریکی نیوی کے 2 ایڈمرل مستعفی ہوکر گھر چلے گئے ہیں۔ جبکہ وزیر جنگ نامی فاکس نیوزی مسخرے کو جنگی جرم کے ارتکاب کے الزام میں کانگریس نے طلب کرلیا ہے۔ لگتا ہے منرو ڈاکٹرائن کو آئین و قانون کی کتابوں سے تاریخی کتب کی جانب شفٹ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایک کروڑ سے زائد لوگ ناکام نہیں، ہار مان چکے ہیں؟

امریکا نے افغان اسپیشل امیگرنٹ ویزا منسوخ کر دیا، ہزاروں خاندان پھنس گئے

امریکا کا بحرالکاہل میں نیا حملہ، 4 افراد ہلاک، وینزویلا تنازع شدت اختیار کر گیا

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی، طلبی کے نوٹس آویزاں

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا عالمی اعزاز، دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ہم پلہ قرار

ویڈیو

18 دسمبر: عربی زبان کا عالمی دن

آمنہ شفیع، بلوچستان کے بچوں کا مستقبل سنوارنے والی باہمت خاتون

لیدر ٹیک بنگلادیش 2025 ڈھاکا میں پاکستانی لیدر مصنوعات کی نمائش

کالم / تجزیہ

’الّن‘ کی یاد میں

سینٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کی پاکستان اور افغانستان سے جڑی ترقی

بہار میں مسلمان خاتون کا نقاب نوچا جانا محض اتفاق نہیں