غالبا 1964 کا دور تھا بلدیاتی الیکشن ہو رہے تھے ایوب خان کا زمانہ تھا بی ڈی ممبر منتحب ہو رہے تھے، میرے والد صاحب بھی محلہ باغبانپورہ کی گلی مسجد صدیقیہ والی گجرانوالہ س خان شفیق اور مہردین کا مقابلہ کر رہے تھے ساتھ کے محلہ سے اکبر انصاری ،عزیز انصاری باب حمید اور بے شمار لوگ الیکشن لڑ رہے تھے کہ عزیز انصاری وہ ہے جنہیں علامہ عزیز انصاری کہا گیا ان کا نام بھی مجید نظامی نے ویسے ہی علامہ رکھ دیا تھا۔ فاروق عالم انصاری کے والد تھے جو نوائے وقت میں کالم لکھتے ہیں ۔
ہر کسی کو انتحابی نشان ملا ان سب میں ایک انفرادی نشان “گھڑا” تھا یہ دوسری گلی کی بابا اکبر علی انصاری کو ملا تھا بڑا کانٹے دار مقابلہ ہوا ہر شام کو میں لڑکوں کی ایک ٹولی لے کر محلہ باغ انوپ کے ساتھ جڑے ہوئے محلہ رسول ہور ملک جاتا۔ ایرہ وغیرہ چھوڑ دو۔ برخوردار کو ووٹ دو۔پہلی بار والد صاحب کا نام بے تکلفی سے لے رہا تھا۔
خیر یہ تفصیل لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انتحابی نشان پوری دنیا کے لوگ دوسرے لوگوں کو مضحکہ خیز ناموں سے پکارتے ہیں، جدہ میں جب عربی زبان سے واقفیت ہوئی تو وہاں بھی یہ چلن دیکھا، چچا اکبر علی انصاری الیکشن ہار گئے لیکن بد قسمتی سے انتحابی نشان ان کے پیچھے پڑ گیا جب تک رہے اکبر گھڑے کے نام سے پکارے جاتے رہے جب تک میں گجرانوالہ شہر میں رہا ان کی اولاد بھی اس نام سے پکاریں جاتی رہی اکبر گھڑے کے نام سے جانی گئی اور سنا ہے ان کے ہوتے بھی اکبر گھڑے کے ہوتے کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔
بعض لوگوں کے نام کے ساتھ یہ لاحقے جڑ جاتے ہیں جیسے “لکڑ پار”، “بلیکیا” ذولفقار علی بھٹو نے گجرانوالہ کے حاجی ابراہیم کو اپنی کتاب میں بھی حاجی بلیک کہا تھا۔ غلام دستگیر نے بھی یہ واقعہ سنایا کہ ایک بار وہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ابا جی کو کہا کہ حاجی بلیکیا صاحب تشریف لائے ہیں، یہ سارے لوگ میرے والد صاحب کے دوست ہیں اور ان کی اولادیں میری دوست ہیں یہاں کسی کی ہتک عزت کرنے کا مقصد نہیں ہے، آپ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ میرا لکھنے کا کیا مقصد ہے، ان میں حاجی ابراہیم صاحب کے صاحبزادے عثمان ابراہیم پانچ چھ بار قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں اور اتنی ہی بار منسٹر بھی بن چکے ہیں اور شہر کی انصاری برادری کے سر براہ ہیں۔
نام ساری زندگی پیچھے نہیں چھوڑتے،اب فواد چوہدری کو صرف اس لیے دھر لیے گیا ہے کہ انہوں نے کسی کو ،،منشی،، کہہ دیا ہے،میں حیران ہوں کہ منشی نام ہمیشہ ہی محترم رہا ہے ہمارے زمانے میں اساتذہ کرام کو منشی کہا جاتا تھا، گائوں میں ہر ایسے شخص کو عزت کے نام سے پکارا جاتا تھا جو پڑھا لکھا ہوتا تھا،خود منشی پریم چند اردو ادب کے جاندار مصنف ہیں جنہوں نے معروف کہانی ،،غم نہ داری بز بخر،،، غم جو نہیں ہے تو بکری پال لے۔ ان میں عثمان بزدار کے بھی قبیلے کا ذکر ہے، بزدار بکریاں پالنے والا،وہ تو سنت رسول ہے اللہ کے پیارے نبی نے بکریاں چرائیں تھیں، تو حضور آپ کا نام برا منانے کے قابل نہیں ہے۔
جدہ میں زہرہ ہوٹل کے کفیل عبدالکریم یحیی منشی ہے جو باوقار شخص تھے،ہاں آپ نے اس کو اپنی چھیڑ بنا لیا ہے چوہدری فواد نے از راہ مزاح آپ کو منشی کہہ دیا آپ نے برا منا لیا اور دفعہ 124 لگا دی، یہ وہ گرد جرم ہے جو انگریز وفا کے مستانوں ہر کھاتے تھے یعنی باغیوں پر لگتی تھی یہی گر جرم جاوید ہاشمی پر لگی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ جی ہاں میں باغی ہوں، ویسے سچ پوچھیں وہ بندہ سچا تھا وہ جھوٹ نہیں کہتا تھا اسوقت ہم سب اس کی بات کو نہیں مان رہے تھے لیکن آج جب عمران خان اپنے زخموں کو دیکھ رہے ہوں گے تو باغی کو یاد کر رہے ہوں گے۔
میں نے جاوید ہاشمی کے ساتھ بڑا وقت گزارا ہے اس کے جلسے کی دریاں سیدھی کی ہیں بنگلہ دیش نامنظور میں اکٹھے کام کیا ۔ میں وہ گندھار ہوں جو سعودی ںریدہ سے انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی دعوت دیتا رہا جیل میں ہاشمی کو سمجھایا کہ آپ آ جائو اس بات کی گواہی “طارق عزیز” دیں گے یہ سچا شخص کہے گا کہ میں انہیں پارٹی میں لایا لیکن انہیں بچا نہ سکا اسے سرائیکی بیلٹ کے لیڈر ہی لے ڈوبے جناب ،اب تو لوگ کہیں گے ویسے لوگوں کا کام ہے کہنا، اب تو اس پورے شور غل کے بعد ۔۔آپ کا نام ،منشی،، ہی پکارا جائے گا، لوگ آپ کے سامنے نہیں کہیں گے آگے پیچھے آپ کومنشی نام ہی سے پکارا جائے گا۔