گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کی نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے نوجوان رہنما حسنات عبداللہ نے ڈھاکہ کے سینٹرل شہید مینار میں ایک اجتماع میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایسی قوتوں کو پناہ دیتے ہیں جو بنگلہ دیش کی خودمختاری، صلاحیت، ووٹنگ کے حقوق اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتیں، تو بنگلہ دیش جواب دے گا۔‘ ڈھاکہ بھارت مخالف قوتوں اور بشمول علیحدگی پسند گروہوں کو پناہ دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت کے شمال مشرقی خطے المعروف ’سیون سسٹرز‘ کو الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ’سیون سسٹرز ‘ میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ اور تریپورہ شامل ہیں۔ ان میں سے آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم کی بنگلہ دیش کے ساتھ زمینی سرحد ملتی ہے، جس کے باعث یہ خطہ اسٹریٹجک طور پر نہایت حساس سمجھا جاتا ہے۔
ان کے اس بیان پر اجتماع میں حاضرین نے بھرپور تالیاں بجائیں۔
یہ بھی پڑھیے شیخ حسینہ کی برطرفی نے بنگلہ دیش میں بھارت کی مداخلت ختم کردی، بنگلہ دیشی صحافی
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کے پورے خطے پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر بنگلہ دیش غیر مستحکم ہوا تو مزاحمت کی آگ سرحدوں سے باہر تک پھیل جائے گی۔
واضح رہے کہ بھارت ماضی میں شمال مشرقی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسند اور علیحدگی پسند گروہوں پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی سرزمین کو محفوظ پناہ گاہ، آمدورفت کے راستے اور لاجسٹک اڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے، خصوصاً 1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں۔
بھارتی سکیورٹی اداروں کے مطابق نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ (این ایل ایف ٹی) اور آل تریپورہ ٹائیگر فورس (اے ٹی ٹی ایف) جیسے گروہوں کے کیمپس اور معاون نیٹ ورکس سرحد پار موجود تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کے کارندے بھارتی سکیورٹی فورسز سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش میں داخل ہو جاتے تھے، جبکہ تربیت اور اسلحے کی فراہمی بھی سرحد پار سے ممکن بنائی جاتی تھی۔
حسنات عبداللہ کے اس بیان کے بعد بھارت نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ نئی دہلی میں متعین بنگلہ دیشی ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔

قبل ازیں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کی کابینہ کے ایک سابق نوجوان رکن محفوظ عالم نے گزشتہ برس 16 دسمبر کو اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ مغربی بنگال، تریپورہ اور آسام کو بنگلہ دیش کا حصہ قرار دیا۔ بھارت ان کی یہ سوشل میڈیا پوسٹ اب تک نہیں بھول سکا۔
اس پوسٹ میں انہوں نے بنگلہ دیش اور بھارت کے بعض حصوں کے درمیان ثقافتی مماثلتوں کو اجاگر کیا، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ مذہبی اختلافات سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے ایک نقشہ بھی شیئر کیا جس میں بھارت کی ریاستیں مغربی بنگال، تریپورہ اور آسام کو بنگلہ دیش کے علاقے کے طور پر دکھایا گیا۔
محفوظ عالم نے پوسٹ میں مزید کہا کہ شمال مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش کی ثقافتیں مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتی ہیں، انہوں نے کہا کہ بھارت سے حقیقی آزادی کے لیے، ہمیں 1975 اور 2024 کو دوبارہ دہرانا ہوگا۔ کیونکہ ہمیں نئی جغرافیہ اور نظام کی ضرورت ہے۔
نوجوان رہنما نے اپنی پوسٹ کے ساتھ ’گریٹر بنگلہ دیش‘ کا نقشہ بھی شیئر کیا تھا جس کی اپریل 2025 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں نمائش بھی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کی ’7 سسٹرز‘ کو کاٹ کے رکھ سکتے ہیں، بنگلہ دیشی رہنما کی بھارت کو دھمکی
’گریٹر بنگلہ دیش‘ کا خواب حسنات عبداللہ یا محفوظ عالم ہی کا نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا نوجوان مستقبل میں بنگلہ دیش کو اسی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیشی نوجوانوں کا یہ حسین خواب، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔
بنگلہ دیشی نوجوان اپنے خواب کی بنیاد مندرجہ ذیل دلائل کو بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ 1947 کی تقسیم اور اس کے بعد کے سیاسی فیصلوں کو غلط اور ناانصافی پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات 1971 کی آزادی یا 1975 اور 2024 کے بنگلہ دیش کے سیاسی واقعات کا حوالہ دے کر اس علاقے کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں اور بنگلہ دیش کی ثقافت، زبان (بنگالی یا دیگر مترادف لسانی گروہ) اور رسم و رواج میں مشترک عناصر ہیں۔ مثلاً آسام کے بعض علاقوں میں بنگالی بولنے والی کمیونٹیز موجود ہیں۔
وہ شمال مشرقی بھارت میں ہندو اکثریت یا مکمل غیر مسلم آبادی کو بنیاد بنا کر، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ علاقے تاریخی طور پر اسلام پسندوں کی حکمرانی یا مسلم اکثریت کے تحت آتے تھے۔ اس اعتبار سے انہیں بنگلہ دیش میں شامل ہونا چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیے بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ
یہ حلقے یہ دعوے اس بنیاد پر بھی کرتے ہیں کہ یہ علاقے بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی یا ڈیموگرافک لحاظ سے زیادہ ہم آہنگ ہیں، خاص طور پر دریاؤں، زمین کی زرخیزی یا تاریخی ریاستوں کے سرحدی علاقوں کے تناظر میں۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ بنگلہ دیشی نوجوانوں کے اس طبقہ کے پیچھے ترک صدر طیب اردوان ہیں۔ اور وہ برصغیر کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
بھارتی اداروں کا کہنا ہے کہ ترکیہ ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف بنگلہ دیش میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ پیش رفت خاص طور پر یونس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد دیکھنے میں آئی، اور یہی وجہ ہے کہ بھارت مسلسل فکرمند ہے۔














