سینیئر سیاستدان جہانگیر ترین نے اپنا سیاسی دفتر ماڈل ٹاؤن میں کھول دیا ہے۔ جہانگرترین کے ساتھی نے وی نیوز کو تصدیق کی یہ آفس پہلے سے ہی ماڈل ٹاؤن میں موجود تھا جسے دوبارہ ملاقاتوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین ان دنوں پاکستان میں ہیں، کافی عرصے بعد ان کا ’ظہور‘ کور کمانڈر ہاؤس یعنی جناح ہاؤس جلنے کے بعد ہوا ہے۔ جہانگیرترین سے وہاں بھی ملاقات تھی ہوئی لیکن انھوں نے میڈیا نمائندوں کو زیادہ لفٹ نہیں کروائی بس اپنا موقف دیا اور مذمت کرنے کے بعد عون چوہدری کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے۔
یہ بات تو ان کے آنے کی ہوگئی لیکن اب وہ کیا کرنے جارہے ہیں سب کے ذہنوں میں یہ ہی سوال گھوم رہا ہے۔ جہانگیر ترین کو پاکستان آئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے اور اب دوبارہ پوری آب و تاب سے سیاسی میدان سجانے کا سوچ رہے ہیں۔
جہانگیرترین نے جو دفتر عمران خان کی حکومت بنانے کے لیے استعمال کیا تھا وہ دوبارہ سے ماڈل ٹاؤن میٹنگز کے لیے کھول دیا گیا ہے اور طیارہ بھی رن وے پر اڑنے کے لیے تیار ہے جیسے 2018 میں عمران خان کی حکومت بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
رن وے اوکے ہے باس
یہ اشارہ جہانگیر ترین کو اس وقت ملا تھا جب جہانگیر ترین نے عمران خان کی پنجاب حکومت بنانے کے لیے جنوبی پنجاب کے آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملایا اور جہاز پر بٹھا کر ساتھ لاتے ہوئے پی ٹی آئی میں شامل کراتے رہے۔ مگر اب ان ساری باتوں میں ایک ہی مماثلت ہے وہ یہ کہ جہاز اور آفس اب کی بار عمران خان نہیں اس بار اپنے لیے یہ جہاز اڑان بھر سکتا ہے۔ پہلے یہ طیارہ جنوبی پنجاب سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوتا تھا لیکن اس دفعہ رن وے لاہور میں اوکے ملا ہے۔
کیا جہانگیرترین اپنی پارٹی بنانے جارہے ہیں ؟
وی نیوز کی جہانگیرترین کے قریبی لوگوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں اب جانے کا کوئی ارداہ نہیں ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات اور جہانگیر ترین کی گپ شپ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ پاور پولیٹکس کرنے جارہے ہیں اب ہم نے دوبارہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں وہ اگر ہمارے سے ساتھ رابط کرتے ہیں تو اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ فی الفور نئی پارٹی بنائی جائے یا نہیں۔
جہانگیر ترین کون ہیں
پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین بنیادی طور پر ایک زمیندار اور بزنس مین ہیں تاہم انہوں نے 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کی طرف سے الیکشن لڑا اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی کابینہ میں زراعت کے ایڈوائزر کے طور پر شامل ہو گئے۔
2004 میں جہانگیر ترین کو وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر صنعت و پیدوار شامل کر لیا گیا جہاں انھوں نے 2007 تک خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران ان کی شوگر ملز کا کاروبار بھی جاری رہا۔ 2008 کے انتخابات میں بھی جہانگیر ترین نے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔
2011 کے اختتام پر جہانگیر ترین نے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور ان کا شمار پارٹی کی اہم ترین شخصیات میں ہونے لگا۔ 2013 میں چیئرمین عمران خان نے انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا۔
وہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تاہم پارٹی میں اہم حیثیت برقرار رکھی اور 2015 کے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔
تاہم دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے انہیں اپنے کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے پر آئین کی دفعہ 62 ون ایف کے تحت کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔
اس کے باوجود جہانگیر ترین نے پارٹی معاملات میں اہم ترین کردار ادا کیا اور ان کے اپنے دعوے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی تقیسم ان کی مشاورت سے ہوئی جس کے باعث پارٹی جیت گئی۔
تاہم فیصلہ کن اکثریت کے لیے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ یہاں ایک بار پھر جہانگیر ترین حرکت میں آئے اور اپنے نجی جہاز پر آزاد امیدواروں کو ملک بھر سے بنی گالہ لا لا کر پارٹی میں شامل کراتے گئے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حتمی اکثریت حاصل کر کے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آ گئی۔
سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کو وزیراعظم کی قربت حاصل رہی اور وہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی بن گئے۔ وزیراعظم آفس میں اثر و رسوخ کے باعث انہیں ‘ڈپٹی پرائم منسٹر’ کا لقب بھی دیا جاتا رہا۔
زراعت کا ماہر ہونے کی وجہ سے سابق وزیراعظم عمران خان نے انھیں زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کی اجازت دی تھی۔ انھیں نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی خاصا اثر و رسوخ حاصل رہا ہے۔