’سراب ختم ہوا،اضطراب ختم ہوا‘

جمعرات 25 مئی 2023
author image

خورشید ندیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آثار یہی ہیں کہ تضادات سے بھرپور  سیاست کا ایک عہد تمام ہوا۔ کتابِ سیاست کا اک  اورباب ختم ہوا۔’شباب ختم ہوا،اک عذاب ختم ہوا‘۔ اب وقت  آگیاہے کہ عمران خان صاحب کے سیاسی ورثے پر بات کی جائے۔سوال اٹھایا جائے کہ انہوں نے ہماری سیاست کو کیا  دیا؟

سیاسی مبادیات سے واقف ایک عامی بھی جانتا ہے کہ خان صاحب اسی گملے میں اگائے گئے جس میں اہلِ سیاست کی ایک پوری نسل تیار ہوئی۔ مقتدرہ کے پائیں باغ میں ایک’ گوشہ سیاست‘ ہے۔ یہاں ایک نرسری ہے جہاں  ’محکمہ زراعت‘ نئے تجربات کرتا ہے۔ نئے نئے گل بوٹے اگائے اور کھلائے جاتے ہیں۔

آخری بار مگر جو تجربہ  ہوا، اس نے باغباں کو بھی ششدر کر دیا۔ اس بار جو بیج بویا گیا اس میں  ایسے امکانات چھپے ہوئے تھے جو باغبان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ باغبان پر جو گزری سوگزری، اس نئے تجربے نے وطنِ عزیز کی فضا میں جو زہر گھولا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ یہ زہر پاکستان کی سیاست کو کب تک اور کیسے آلودہ رکھے گا، آج لازم ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ میں اس تجربے کے چند مضمرات کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں:

1۔ جمہوریت پاپولرزم میں ڈھل گئی، یوں ہم اس تصور اور نظام سے وابستہ ان ثمرات سے محروم کر دیے گئے جن سے مہذب دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ جمہوریت نقطہ ہائے نظر  کے احترام کا نام ہے۔ یہ معاشرے کو تقسیم نہیں کرتی بلکہ اختلاف کے ساتھ جینے کے آداب سکھاتی ہے۔ یہ اختلاف کو ایک فطری رویہ سمجھتی اور ایک دوسرے سے استفادے کا درس دیتی ہے۔یہ بتاتی ہے کہ  کسی معاملے میں نزاع پیدا ہو جائے تو فصلِ نزاع کے لیے اکثریت کی بات کو مان لیا جائے۔ اس کے لیے اپنی رائے کی قربانی لازم نہیں۔آپ اپنی بات کہتے رہیں۔یہ ممکن ہے آنے والے کل کو آپ کی رائے اکثریت کی رائے بن جائے۔ اس طرح جمہوری معاشرے میں اکثریت اور اقلیت یکساں  اعتماد کے ساتھ اجتماعی ترقی اور سماجی ارتقا میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اس کے برخلاف پاپولرزم معاشرے کو تقسیم کرتا ہے۔ایک  فرد عوامی مقبولیت کی بنیاد پر خود کو معیارِ حق بنا کر پیش کرتا ہے۔ معاشرہ  مذہبی ہو تو وہ پیر اور مرشد بن جاتا ہے۔ قوم پرست سماج میں وہ قومی افتخار کی علامت ہوتا ہے۔ اب جو اس کے ساتھ ہے، وہ حق کے ساتھ ہے۔ وہ قوم کا حقیقی خیر خواہ ہے۔اس کا مخالف ’منکر‘ ہوتا ہے یا قوم کا غدار۔

عمران خان صاحب نے یہی کیا۔انہوں نے  جمہوریت کی طرف بڑھتے  ہوئےسماج کو پاپولرزم کی راہ دکھائی۔ معاشرے کو  تقسیم کیا۔خود کو معیارِ حق بنا کر پیش کیا۔ پاکستانی معاشرہ اس سے پہلے کبھی اس نوعیت کی تقسیم کا شکار نہیں ہوا۔ یہاں مذہبی فرقے بھی تھے اور سیاسی جماعتیں بھی۔ عام آدمی اپنی تمام تر وابستگی کے باوصف کبھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہوا کہ وہ یا اس کی جماعت اور فرقہ سر تا پا حق ہیں اور دوسری طرف سراسر باطل ہے۔ تقسیم کا زہر اب معاشرے کے رگ و پے میں اتر گیا ہے۔ اسے دوبارہ یک جا ہونے میں نہیں معلوم  کتنا وقت چاہیے۔

2۔سیاست میں مذہب کا استعمال ہمارے لیے کوئی نئی روایت نہیں مگر خان صاحب نے اس کو بھی ایک ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں مذہب اور معاشرہ دونوں معرضِ خطر میں ہیں۔ ہماری تاریخ میں مذہبی سیاست کا پہلا دور فکری اور نظری ہے۔اس کا تعلق ان عالمی حالات سے ہے جب دنیا میں ’ازمز(Isms)کا دور تھا۔ سوشلزم، کیمونزم، کیپیٹلزم جیسے نظریات  پیش کیے جا رہے تھے۔

اس پس منظر میں مسلم دانش وروں نے سوچا کہ اسلام کو بھی ایک ’ازم‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔ یوں اسلام کی ایک نئی تعبیر سامنے آئی جسے ’اسلام ازم‘(Islamism)کہا گیا۔ دوسرا دور وہ تھا جب عوام کی مذہب کے ساتھ وابستگی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔یہ کام ان حکمرانوں نے بھی کیا جنہیں اپنے اقتدار کے لیے کسی جائز بنیاد کی ضرورت تھی۔ اسی طرح سیاست میں کارفرما اہلِ مذہب نے بھی  اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ تاہم ان مراحل میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے خود کو اوتار بنا کر پیش کیا ہو۔ یہ کام پہلی بار عمران خان صاحب نے کیا۔

عمران خان نے تدریجاً ایک کلٹ کی صورت اختیار کر لی۔ انہوں نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ  وہ اس زمین پر حق کی تنہا آواز ہیں۔ ایسی وڈیوز کو پھیلایا گیا جن میں ان کی ذات کو ایک مذہبی تقدس دیا گیا۔ لوگ مذہبی لغت میں کلام کرتے ہوئے انہیں خدا کے ایک نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اجتماعی سطح پر اس عمل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سیاست میں مذہب کو ایک کلٹ بنانا، عمران خان صاحب کا ایک اہم سیاسی ورثہ ہے۔

3۔خان صاحب نے نئی نسل میں ہیجان پیدا کیا۔ ان کے سامنے مسائل کو ضرورت سے زیادہ سادہ بناکر پیش کیا اور ان کی سادہ لوحی کا استیصال کیا۔ ہیجان کو سیاسی شعور کا نام دیا۔ خان صاحب نے بالخصوص 2014کے بعد نوجوانوں کو ایک لمحے کے لیے سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی۔ وہ اقتدار میں تھے تب بھی انہیں ہیجان میں مبتلا رکھا تاکہ وہ کوئی سنجیدہ سوال نہ اٹھا سکیں۔

یہی وہ جنون ہے جس نے 9 مئی کو اس طرح ظہور کیا کہ کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہی۔ سیاسی اختلاف نفرت میں بدل گیا اور جمہوریت اور فسطائیت میں فرق باقی نہیں رہا۔

4۔عمران خان صاحب نے سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کے کم ہوتے کردار کو اس طرح بڑھا دیا کہ پاکستان سیاسی اعتبار سے ترقی معکوس کا شکار ہو گیا۔ پہلے مقتدرہ کے نیوٹرل ہونے کا مذاق اڑایا اور اس کی غیر جانب داری کو ہدفِ تنقید بنایا۔ فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ اس کی سیاسی حلیف بنے اور اپنے آئینی کردار کو نظر انداز کرے جو اس کو غیر جانب دار بناتی ہے۔ جب  عسکری قیادت نے اپنی غیر جانب داری پر اصرار کیا تو اس  کو اپنا حریف بنا لیا اور ایک قومی ادارے پر اپنے قتل کی سازش کا الزام دھر دیا۔ یوں فوج کو مجبور کیا کہ وہ سیاسی جماعت بن کر ان کے سامنے  کھڑی ہو جائے۔

وہ کبھی اہلِ سیاست کے ساتھ ہم کلام ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ وہ آرمی چیف سے بات کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹا۔ آج اگر مقتدرہ ہمیں سیاسی طور پر زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہے یا آئندہ دنوں میں اس کے سیاسی کردار میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری خان صاحب  پر ہے۔

یہ خان صاحب کے سیاسی ورثے کا خلاصہ ہے۔ ان کی سیاست کا تکمیلی باب رقم ہو رہا ہے۔ان کے ہاتھوں میں ہم نے بہت کچھ گنوایا۔ لیکن اگر ہمیں اس کا ادراک ہو جائے کہ ہم کیا گنوا بیٹھے ہیں تو اسے ایک نیک شگون قراردیا جا سکتا ہے:

ہوئی نجات  سفر میں فریبِ صحرا سے

سراب ختم ہوا،اضطراب ختم ہوا

 

(خورشید ندیم،ایک دانش ور ہیں۔ ریاست اور مذہب،سماج اور مذہب،ا ن کی دلچسپی کے میدان ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔گزشتہ  دو دہائیوں سے قومی اخبارات میں  کالم لکھ رہے ہیں۔)

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش ور، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مذہب کا ریاست اور سماج سے تعلق ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp