ایک بار جینیاتی ٹیسٹ ہوجانے سے ان افراد میں دل کے دورے کے امکانات کا پتا لگایا جاسکتا ہے جو پیدائش کے وقت سے ہی اس خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ جینومک رسک اسکور (جی آر ایس) ٹیسٹ پر صرف 40 پاؤنڈ کا خرچہ آتا ہے اور اس سے یہ پتا لگانے میں مدد مل سکتی ہے کہ ان افراد کو بھی دل کا دورہ کیوں پڑسکتا ہے جن میں اس مسئلے کے روایتی عوامل بشمول ہائی کولیسٹرول کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکریننگ کے آئیڈیا کو دریافت کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔
ابتدائی سطح پر خطرے کی نشاندہی
جی آر ایس کی پیمائش کسی بھی عمر میں کی جا سکتی ہے کیونکہ لوگوں کا ڈی این اے تبدیل نہیں ہوتا اس لیے اصولی طور پر بچوں کا ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس مطالعے میں محققین نے خون کے نمونوں کو دیکھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ ایک سادہ ’ماؤتھ سواب‘ کی مدد سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
محققین نے یو کے بائیو بینک میں منعقدہ 40 سے 69 سال کی عمر ے 5 لاکھ افراد کے جینومک ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد جی آر ایس وضع کیا جن میں 22 ہزار ایسے افراد بھی شامل تھے جنہیں دل کی بیماری تھی۔
بیکر ہارٹ اینڈ ڈائیبیٹس انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی آف کیمبرج کے ڈاکٹر مائیکل انوئے نے کہا کہ دل کی بیماری کا تقریباً نصف جینیاتی یا وراثت سے تعلق رکھتا ہے جبکہ باقی افراد کو یہ مرض طرز زندگی یا ماحولیاتی اثرات کے باعث لاحق ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم خطرے کی اسکریننگ میں جینیاتی جزو کو نظر انداز کرتے چلے آرہے تھے اور اس حوالے سے اب تک اندھیرے میں تھے‘۔
دل کا عارضہ دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے اور برطانیہ میں یہ ہر سال 66 ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لیتا ہے۔
یونیورسٹی آف لیسٹر سے تعلق رکھنے والے سینئر پروفیسر سر نیلیش سامانی نے کہا کہ ہیلتھ چیکس کے ذریعے 40 کی دہائی کے لوگوں کو دل کے امراض کے خطرے کا اندازہ لگانا درست نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ مرض علامات ظاہر ہونے سے کئی دہائیوں پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے اس اس کی تشخیص پہلے ہی ہوجانی چاہیے جو کہ جی آر ایس کے ذریعے ممکن ہے۔
نیلیش سامانی نے مزید کہا کہ یہ مریضوں میں اس مرض کی تشخیص کا ایک سستا طریقہ ہے اور اس کے باعث لوگ غیرضروری اسکریننگس سے بھی بچ سکتے ہیں۔