جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک انجینیئر میکائیلا بینٹ ہاس وہیل چیئر استعمال کرنے والی دنیا کی وہ پہلی انسان بن گئیں جنہوں نے خلا میں جانے کا اعزاز کیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: قسمت کی دھنی خواتین جو خلائی سفر پر ساتھ جانے والی پہلی ماں بیٹی ہوں گی
میکائیلا کو 7 برس قبل ای پہاڑ پر بائیک کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں ان کی ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹ لگ گئی تھی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی تھیں۔
اس کے باوجود انہوں نے خلا میں جانے کا خواب ترک نہیں کیا اور آن لائن ایک ریٹائرڈ خلائی انجینیئر سے رابطہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ آیا ان کے لیے خلاباز بننا اب بھی ممکن ہے یا نہیں۔
بعد ازاں اسی انجینیئر کی مدد سے امریکی خلائی سیاحت کی کمپنی بلیو اوریجن کے ساتھ 10 منٹ کی تاریخی پرواز کا اہتمام کیا گیا۔
ہفتے کے روز میکائیلا بینت ہاؤس پانچ دیگر مسافروں کے ساتھ ٹیکساس سے روانہ ہوئیں اور خلا کی سرحد سمجھی جانے والی کارمان لائن سے کچھ اوپر تک پہنچیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی خلا باز 17 سالہ انتظار کے بعد اکتوبر میں خلائی سفر پر روانہ ہوں گی
لینڈنگ کے بعد بلیو اوریجن کی جانب سے جاری ویڈیو میں میکائیلا نے کہا کہ یہ ایک شاندار تجربہ تھا اور مجھے صرف منظر ہی نہیں بلکہ اوپر جانے کے تمام مراحل بے حد پسند آئے۔
بلیو اوریجن کا نیو شیپرڈ نامی دوبارہ استعمال ہونے والا خلائی راکٹ مقامی وقت کے مطابق 14:15 پر روانہ ہوا۔ میکائیلا، جو یورپی خلائی ایجنسی میں کام کرتی ہیں، نے کہا کہ حادثے کے بعد انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ معذور افراد کے لیے دنیا اب بھی کتنی غیر موزوں ہے۔
انہوں نے وہیل چیئر سے خود اپنی مدد آپ کے تحت کیپسول میں داخل ہونے کا عمل مکمل کیا جبکہ سفر کے دوران ریٹائرڈ اسپیس ایکس منیجر ہانس کوئنیگسمین ان کے قریب موجود تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر مدد فراہم کی جا سکے۔
بلیو اوریجن کے سینئر نائب صدر فل جوائس نے کہا کہ میکائیلا کی پرواز اس بات کا ثبوت ہے کہ خلا سب کے لیے ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ان کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔
یہ بلیو اوریجن کی 16ویں سب آربٹل سیاحت پرواز تھی، تاہم اس مشن کی لاگت ظاہر نہیں کی گئی۔ اس سے قبل کمپنی درجنوں سیاحوں کو خلا لے جا چکی ہے جن میں اپریل میں گلوکارہ کیٹی پیری اور دیگر معروف شخصیات بھی شامل تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مریخ مشن: ناسا کے خلائی جہاز نے چپ سادھ لی، وجہ سمجھ سے باہر
یہ نمایاں خلائی پروازیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب نجی خلائی کمپنیاں خلائی سیاحت میں سبقت حاصل کرنے کے لیے سخت مقابلے میں مصروف ہیں۔














