آزای اور غلامی

منگل 23 دسمبر 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ہاں آزادی اور غلامی کی بحث ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف وہ یوتھیے ہیں جن کے نزدیک پلے بوائے اور اس کے سرپرست جرنیلوں کا اقتدار آزادی ہوتا ہے اور بھٹو و شریف خاندان کی حکمرانی غلامی۔ تو دوسری طرف وہ لبرلز ہیں جن کے نزدیک پاک آرمی کے جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت غلامی ہوتی ہے جبکہ برٹش آرمی کا پورے ہندوستان پر قبضہ ایک ایسا یادگار دور ہوتا ہے جس کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنا بھی حریت فکر کی دلیل ہے۔

سو لازم ہے کہ آزادی اور غلامی کے تصور پر تھوڑی بات کرلی جائے۔ بات شروع کرنے سے قبل ہم پورے صدق دل سے وعدہ کرتے ہیں کہ اس گفتگو میں قرآن و سنت کو ٹچ بھی نہیں کریں گے تاکہ ہمارے لبرل دوستوں کو ’وعظ‘ والی فیلنگز بدمزہ نہ کریں۔ ہم ان سے انہی کی چھری یعنی فلسفے کی مدد سے نمٹیں گے۔

آزادی اور غلامی کی بحث میں پہلا سوال تو یہی ہے کہ آزادی کیا ہے؟  یعنی اس کی تعریف کیا ہے؟ اس حوالے سے سب سے گمراہ کن تعریف یہ پیش کی جاتی ہے کہ جو بھی چاہو کرسکنا آزادی ہے۔

یہ تعریف گمراہ کن یوں ہے کہ خواہشات کی تکمیل آزادی اس لیے نہیں کہ خود خواہشات بھی غلامی ہوسکتی ہیں۔ اور یہ بات آنے والی سطور میں خود ہی واضح ہوجائے گی۔ آزادی کی درست فلسفیانہ تعریف یہ ہے ’اپنے وجود، فیصلوں اور شناخت پر بیرونی جبر اور اندرونی مجبوری دونوں سے نجات‘۔

یہ بھی پڑھیں: منرو ڈاکٹرائن اور اس کی بگڑتی شکلیں

اگلا سوال یہ آجاتا ہے کہ آزادی کی ساخت کیا ہے؟ ژاں ژاک روسو  کے نزدیک آزادی فطری،  ناقابلِ تنسیخ اور غیر مشروط ہے۔ روسو کا مشہور زمانہ بنیادی مقدمہ ہی یہ تھا کہ  انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہے۔

روسوں کے ہاں آزادی کسی انعام کا نام نہیں بلکہ انسان ہونے کی شرط ہے۔ گویا روسو کے نزدیک انسان ہے ہی وہ جو آزاد ہے۔ اس جملے کو ذہن میں حاضر رکھ کر آگے بڑھیے گا کیونکہ یہ اپنی پوری معنویت آگے چل کر فیصلہ کن طور پر واضح کرے گا۔

اس تصور کے مقابل ایک اور تصور یہ ہے کہ آزادی فطری یعنی پہلے سے موجود نہیں بلکہ یہ ترقی کے بعد آئے گی اور ترقی آئے گی تعلیم، نظم اور وفاداری کے نتیجے میں۔ یہ تصور کلونیل پاورز نے گھڑا اور پھیلایا۔ یعنی وہ مغربی ممالک جنہوں نے یورپ سے نکل کر لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ میں قوموں کو غلام بنایا۔

یوں آج کے دور میں سمجھنے والا ایک نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ غلامی اب وہ قدیم دور والی زنجیری غلامی نہیں کہ گلے میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر کچھ لوگوں کو منڈی لایا گیا اور ان کی قیمت لگا کر بیچ دیا۔ بلکہ اب غلامی زیادہ وسعت اختیار کرکے 3 سطحوں پر پھیل چکی ہے۔ پہلی سطح ہے وہ  جسمانی غلامی جو کسی قوم پر چڑھائی کرکے مسلط کردی جاتی ہے۔ ایسی غلامی کے لیے 3 آلات استعمال ہوتے ہیں۔ فوج، قانون اور سرکاری تشدد۔فلسطین پر اسرائیلی قبضے میں ان تینوں آلات کا استعمال بطور مثال دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسری سطح ہے معاشی غلامی۔ اس کے لیے 2 ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے روزگار کا انحصار جابر اپنی سرکار کی پالیسی سے باندھ دیتا ہے۔ یعنی ایسی پالیسی جس کا نتیجہ ہی یہ نکلے کہ ایک پورا طبقہ روزگار سے محروم ہوکر مستقل پسماندگی میں چلا جائے۔ مثلا امریکا میں ریڈ انڈینز اور انڈیا میں مسلمان۔غلامی کی اس قسم کو ممکن بنانے کے لیے دوسرا ذریعہ ان سرکاری اداروں کو بنایا جاتا ہے جن کی چوکھٹ پر ایک بعد دوسری نسل بھی جا جا کر تھک جاتی ہے مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔یوں ایک روز یہ ہمت ہار جاتے ہیں اور ایسا ہوتے ہی فقدان ہمت کا نام تقدیر خداوندی رکھ لیتے ہیں۔

 غلامی کی تیسری سطح ہے ذہنی غلامی۔ اور یہی سب سے تباہ کن ہے۔ اس میں غلام اپنے آقا کو محسن سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی اطاعت کو عقلمندی باور کرنے لگتا ہے۔ اور مزاحمت کو خود ہی نادانی ثابت کرنے پر تل جاتا ہے۔غلامی کی اس قسم کا فرانسیسی ماہر نفسیات و فلاسفر فرانٹس فینن نے الجزائر میں گہرا مشاہدہ کیا تھا۔ اس مشاہدے کو  نفسیاتی تجزیے سے گزار کر فینن نے  اپنا پورا حاصل مطالعہ کچھ یوں پیش کیا تھا، نوآبادیاتی ذہن اپنی ہی محکومی کے عمل میں خود شریک ہو جاتا ہے۔ فینن کا کمال یہ ہے کہ وہ ذہنی غلام کی نفسیات کو زیر بحث لاکر وہ زبردست حقیقت کھولتا ہے جسے ہم آج کی تاریخ میں بھی اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ذہنی غلام خود کو آقا کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اور  اس کی علامات بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ذہنی غلام سے آپ ہمیشہ یہ تین لگے بندھے جملے سنیں گے

’ہم اس قابل نہیں‘

’ہمیں وقت چاہئے‘

’آقا برا نہیں، حالات خراب ہیں‘

فینن کہتا ہے، یہ تینوں جملے وہ ہیں جو اس کے آقا نے ہی اسے باور کرائے ہیں۔فینن کے نزدیک ذہنی غلام کی یہ نفسیات خوف کے زیر اثر ہے۔ وہ یہیں نہیں رکتا بلکہ خوف کے مہلک نتائج بتاتے ہوئے کہتا ہے، خوف خاموشی کو جنم دیتا ہے۔ خاموشی جلد عادت بن جاتی ہے اور آخری مرحلے میں یہ عادت ہی نظریہ بنا جاتی ہے۔ یعنی اس ساری غلاظت کے حق میں دلائل تراش لیے جاتے ہیں۔ پھر فینن اپنا حرف آخر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے، جسمانی غلامی زبردستی ہوتی ہے جبکہ ذہنی غلامی رضامندی سے۔ اور رضامندی کے ساتھ غلام بن جانا سب سے مکمل غلامی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر

بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اس کی سب سے بدترین مثال وہ لوگ تھے جو علی گڑھ یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلے اور برٹش قبضے کو استحکام بخشنے میں اپنا رول ادا کرنے لگے۔ ان کی باقیات اب بھی برٹش دور کو یاد کرکے ٹسوے بہاتی ہے اور اگر اڑوس پڑوس میں گوری فوجیں آکر بیٹھ جائیں تو یہ اس کے حامی بن جاتے ہیں۔ وار آن ٹیرر کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ہم ہر علی گڑھی کو اس میں شامل نہیں سمجھتے۔ بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ ایک بڑی اکثریت اس مشن اور سوچ سے جڑ گئی تھی۔

ہمارے ہاں ذہنی غلامی کے گوبر کو زعفران ثابت کرنے کے لیے جو بیانیہ گھڑا گیا اس عنوان تھا ’پہلے بقا پھر آزادی‘ اور اس کے تحت پیش کیا گیا پورا تصور خوف کی اس نفسیات پر قائم کیا گیا کہ اگر ہم نے آزادی مانگی تو سب کچھ کھو دیں گے۔ حریت پسند اہل فکر اس انداز فکر پر دو تنقیدی سوالات اٹھاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا آزادی کے بغیر بقا، بقا کہلا سکتی ہے ؟ اور دوسرا یہ کہ کیا خوف کو نظریہ بنایا جاسکتا ہے ؟تاریخ اس کا جواب پوری بے رحمی کے ساتھ نفی میں دیتی ہے۔ اور وہ بطور دلیل رومی غلامی، افریقی نوآبادیات، فلسطین، الجزائر اور ویتنام کو بطور مثال پیش کرتی ہے۔ جہاں غلامی میں ملنے والے امن نے محکوم قوم کو مستقل زوال کے سوا کچھ نہیں دیا۔

چنانچہ یہ وہ پس منظر ہے جس میں کھڑا ہوجاتا ہے فلسفے کا فیصلہ کن سوال۔ اور وہ یہ کہ کیا آزادی بذات خود ایک اخلاقی قدر ہے یا محض ایک ایسا ہدف جسے حالات کی بنا پر مؤخر کیا جا سکتا ہے؟  روسو اور کانٹ اسے مورل ایبسلوٹ یعنی اخلاقی مطلق مانتے ہیں۔ یعنی آزادی حق ہے انعام نہیں،  اور یہ کہ غلامی کبھی اخلاقی نہیں ہوسکتی۔  یہ تصور کہتا ہے، آزادی کو فائدے یا نقصان نہیں بلکہ غلط یا درست کے پیمانے پر پرکھا جائے گا۔  کانٹ جیسا بڑا فلاسفر کہتا ہے ’جو چیز انسان کو محض ذریعہ بنا دے، وہ اخلاقی نہیں‘ چنانچہ کانٹ کا زور ہی اس بات پر ہے کہ انسان کو کبھی ذریعہ مت بناؤ۔ وہ کہتا ہے، غلامی میں انسان خود مقصد نہیں رہتا بلکہ ریاست، اقتدار یا امن کا ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے غلامی اخلاقی طور پر باطل ہے، چاہے اس کے نتائج وقتی طور پر اچھے ہی کیوں نہ لگیں۔

اب اسی تناظر میں سرسید پسندوں کے موقف کا سقم دیکھیے۔ پہلے بقا پھر آزادی، یہ جملہ  بظاہر بڑا خوشنما لگتا ہے۔ اسی لیے سرسید کے پرستار اس کے جھانسے میں آئے بھی۔ لیکن فلسفے کی میزان پر اس کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں اخلاق مؤخر کردیا جاتا ہے۔ جبکہ فلسفہ کہتا ہے کہ جو چیز مؤخر کی جاسکے وہ اصول نہیں بن سکتی۔ گویا سرسید والے مؤقف کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اخلاق بطور اصول ہی خارج ہوجاتا ہے۔ اور جب آزادی کھڑی ہی اخلاقی قدر پر ہو  اور انسان کی تعریف یہ طے ہو کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے تو بتایئے آزادی کے بغیر وہ انسان رہا؟ اسی لیے روسو نے کہا تھا کہ جو آزاد نہیں وہ انسان نہیں۔ اس باب میں تاریخ کا فیصلہ بھی یہ ہے کہ جو قوم آزادی کو مؤخر کردے، وہ خود کو مؤخر کردیتی ہے۔ اور تاریخ مؤخر ہونے والوں کا انتظار نہیں کرتی۔

اس کا ثبوت دیکھیے، مغل دور کی پیک پر اس سلطنت کا جی ڈی پی دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا۔ پھر آیا گورا آقا اور اس کے علی گڑھ کالج والے ذہنی غلاموں کا دور۔ علی گڑھ کالج کو روشنی پھیلاتے ہوئے آج لگ بھگ 150 سال ہوچکے۔ آج پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش تینوں کا جی ڈی پی ملا کر دنیا کے کل جی ڈی پی کا بمشکل 10  فیصد ہے۔

ہم کو تو سرسید احمد خان نے یہ سبق پڑھایا تھا کہ اگر شلوار  کی جگہ پتلون پہن لی جائے اور بیٹھ کر کھانے کی بجائے کھڑے ہوکر بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا جائے تو ہم ترقی کرکے گورے ہوجائیں گے۔ یعنی مغرب کی ثقافتی تقلید کو ترقی کا زینہ بتایا تھا۔  آج پورا برصغیر  ترقی کے اس نسخے پر عمل بھی کر رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کی 80 فیصد آبادی خیرات پر پل رہی ہے اور حال ہمارا بھی کوئی اچھا نہیں؟ کسی کمبخت نے ترقی والا چارٹ دیوار پر الٹا تو نہیں چسپاں کردیا  جو ترقی کی بجائے زوال دکھا رہا ہے؟

مزید پڑھیں: تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل

اگر ہم بتائیں تو برا تو نہیں مانیں گے؟ جن علوم سے صنعتی و سائنسی ترقی مشروط ہوتی ہے، وہ علی گڑھ کے نصاب میں مرکزی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا

میں ہوں نومید تیرے ساقیانِ سامری فن سے

کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و داماں میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی

 علی گڑھ کالج میں  تو بس مغربیت کے ایجنڈے پر کام چل رہا تھا تاکہ گورے آقا کا قبضہ مستحکم رہے۔ گورا ہمیں ترقی دینے نہیں، تباہ کرنے آیا تھا، سو کر گیا۔ یہی تو اقبال نے کہا تھا:

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید

مشرق میں ہے تہذیب فرنگی کا بہانہ

 ہم گواہی دیتے ہیں کہ سرسید نے گورے سے ملنے والے تمام اہداف پوری کامیابی سے مکمل کیے ہیں۔ اور پاکستانی لبرل بھی بس اتنی سی بات پر سرسید سے خوش ہی نہیں مطمئن بھی ہیں۔ مزہ ان کا اس وقت کرکرہ ہوجاتا ہے جب کوئی اینٹی پٹواری یا اینٹی یوتھیا جنرل آکر ان کی پی ٹی وی والی نوکریاں کھا جاتا ہے۔ یوں شروع ہوجاتی ہے وہ ’تحریک آزادی‘ جس کی اگلی منزل بھی پی ٹی وی کی ہی نوکریاں ہوتی ہیں۔ امید ہے اب آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ آج کل پٹواری لبرلز کے حساب سے ملک میں آزادی کا دور دورہ ہے جبکہ یوتھیے لبرلز کے نزدیک ملک ان دنوں شدید غلامی کا شکار ہے !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

قومی ایئرلائن کی پرائیوٹائزیشن، فوجی فرٹیلائزر کی شمولیت کامیاب نجکاری کے لیے اہم

ریاض سیزن میں ‘فلائنگ اوور سعودی’ کا آغاز، حسین مناظر کی فضائی سیر کی سہولت

اسرائیل خودساختہ صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

بھارت: بیوفائی کے شبے میں شوہر نے بیوی کو آگ میں جھونک دیا، بیٹی بچ گئی

تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے پر چین کی جانب سے امریکی دفاعی کمپنیوں، عہدیداروں پر پابندی

ویڈیو

کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟

یو اے ای کے صدر کا دورہ پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر، حکومت کا عمران خان کے ساتھ ممکنہ معاہدہ

پاکستان اور امارات کا مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق، اماراتی صدر محمد بن زاید النہیان دورہ پاکستان کے بعد واپس روانہ

کالم / تجزیہ

منیر نیازی سے آخری ملاقات

فقیہ، عقل اور فلسفی

پی آئی اے کی نجکاری ، چند اہم پہلو