سپریم کورٹ کا ایک شاندار فیصلہ

جمعہ 26 دسمبر 2025
author image

کلیم اللہ ایڈووکیٹ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اینڈریو جیکسن امریکا کے ساتویں صدر تھے۔ ان کا ایک قول ہے ’وہ تمام حقوق جو شہریوں کو آئین کے تحت حاصل ہیں، اس وقت تک بے وقعت ہیں، جب تک اعلیٰ اخلاقیات کی حامل آزاد عدلیہ ان کو یقینی نہ بنائے۔‘

بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ پر ان مقدمات یا عدالتی فیصلوں پر زیادہ بات ہوتی ہے، جو سیاسی پہلو رکھتے ہیں۔ عام شہریوں یا ان کے حقوق سے متعلق مقدمات کو میڈیا پر پذیرائی کم ہی ملتی ہے۔

اس پس منظر میں، یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے پر تفصیلی بات کی جائے، جو شہریوں کے حقوق کے ضمن میں دوررس نتائج کا حامل ہے۔

درخواست گزار مبشر اقبال ظفر بطور اسسٹنٹ ہیلتھ انسپکٹر ضلع خانیوال کے قصبہ عبدالحکیم میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے کہ محکمے نے معمول کی کارروائی کے مطابق 8 فروری 2021 کو ان کا تبادلہ ضلع بہاولپور کے علاقے ڈیرہ نواب صاحب میں کر دیا۔ درخواست گزار نے مجاز اتھارٹی کو تبادلے کے اس آرڈر کو اس بنیاد پر قبول کرنے میں اپنی دشواری سے آگاہ کیا، کہ اس کی اہلیہ عبدالحکیم میں ایک سرکاری اسکول ٹیچر ہیں اور دل کی مریضہ ہیں،  جنہیں مسلسل طبی علاج کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ اس کے 2 نابالغ بچے ہیں جنہیں نگرانی درکار ہے اور وہ خود بھی ذیابیطس کا مریض ہے، لہٰذا اسے بھی مناسب توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس نے درخواست کی کہ اسے عبدالحکیم میں اپنی موجودہ تعیناتی برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے یا متبادل کے طور پر اسے کسی قریبی اسٹیشن پر منتقل کیا جائے تاکہ وہ اپنے گھریلو معاملات انجام دے سکے۔

یہ درخواست 30 مارچ 2021 کو مسترد کر دی گئی، جس کے بعد درخواست گزار نے فیڈرل سروس ٹربیونل، اسلام آباد کے سامنے اپیل دائر کی، اس اپیل کو بھی ٹربیونل نے 21 ستمبر 2023 کو مسترد کر دیا۔

اس فیصلے کے خلاف درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور مجاز اتھارٹی سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے تک اسے ہمدردانہ بنیادوں پر، بالخصوص اہلیہ اور خاندان کے ساتھ رہنے کی ضرورت کے پیشِ نظر عبدالحکیم میں کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، لیکن یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔

سپریم کورٹ میں یہ کیس جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے 2 رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے حق میں 4 دسمبر کو تاریخی فیصلہ سنایا، 9 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا ہے۔

اس کیس میں فریق مخالف کی نمائندگی ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کی، انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کو اپنی پسند کے مقام پر تبادلے کا کوئی حق نہیں ہے اور اس کی تعیناتی و تبادلہ پالیسی کے مطابق معمول کے طریقہ کار کے مطابق کیا گیا ہے۔

نیز یہ کہ شادی شدہ سرکاری ملازمین سے متعلق حکومتی پالیسی (ویڈلاک پالیسی) محض رہنما اصول ہیں، جن پر لامحدود عرصے تک انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ان دلائل کی روشنی میں سپریم کورٹ نے آئین و قانون کی روشنی میں 2 باتوں کا جائزہ لیا۔

اول یہ کہ کیا درخواست گزار اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ عبدالحکیم میں ہی اپنی خدمات جاری رکھے جہاں اس کی اہلیہ تعینات ہے، دوم یہ کہ ویڈلاک پالیسی کے عمومی دائرہ کار اور اس کے نفاذ کے متعلق سپریم کورٹ کی رائے کیا ہے؟

ویڈلاک پالیسی کے پس منظر اور اس میں وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا کہ یہ پالیسی بنیادی طور پر شادی شدہ سرکاری ملازمین یا سرکاری ملازمت کرنے والی غیرشادی شدہ خواتین کی سہولت اور شادی اور خاندان کے ادارے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے اپنے فیصلے میں لکھا ’یہ پالیسی کوئی مطلق حق پیدا نہیں کرتی، تاہم یہ ایک جائز توقع قائم کرتی ہے کہ شادی شدہ سرکاری ملازمین کو ایک ہی مقام پر تعینات کیا جا سکتا ہے، جس سے خاندان اور ادارہ نکاح کا تحفظ ممکن ہو۔ پالیسی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ہی اسٹیشن پر تعینات شریکِ حیات کو عوامی مفاد کی کسی نہایت مجبوری کے بغیر پریشان نہ کیا جائے، اور یہ کہ قابلِ اجازت حدود سے زائد توسیع کی درخواست پر بھی عوامی مفاد میں ہمدردانہ غور کیا جا سکتا ہے۔‘

آئین کی متعلقہ شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، یعنی یہ کوئی اختیاری معاملہ نہیں کہ ادارے اپنی مرضی کے مطابق من چاہے فیصلے کریں۔

فیصلے میں کہا گیا، ’اس مقدمے میں ہم نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے بار بار یہ پوچھا کہ درخواست گزار اور اس کی اہلیہ کو درپیش طبی مسائل اور پالیسی کے تقاضوں کے باوجود، درخواست گزار کو عبدالحکیم (ضلع خانیوال) میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟

بدقسمتی سے اس کا کوئی قابلِ قبول جواز پیش نہیں کیا گیا، کیونکہ تبادلہ حکم محض معمول کے طریقے سے جاری کیا گیا اور اس کی کوئی خصوصی وجہ بیان نہیں کی گئی، بالخصوص اس کے بعد کہ درخواست گزار نے طبی بنیادوں پر پالیسی کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کے دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی کے نفاذ میں حکومت کی رائے کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں، جس کے مطابق درخواست گزار کو کچھ عرصے تک پالیسی کا فائدہ مل چکا ہے۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں وضاحت سے کہا، ’جب تک عوامی مفاد میں ناگزیر نہ ہو، شادی شدہ جوڑوں کو ایک ہی جگہ کام کرنے کا فائدہ دیا جائے۔ اسی طرح غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی رہائش گاہ پر کام کر سکیں۔

پالیسی کا بنیادی مقصد ہی شادی یا خاندان میں تبادلے اور تعیناتی کے باعث پیدا ہونے والی علیحدگی کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ ریاست کو اپنی ہی پالیسی پر خلوصِ نیت سے عمل کرنا ہوگا اور اس کے مقصد کو برقرار رکھنا ہوگا۔

اس کے برعکس، ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ عملی رویہ پالیسی کے مقاصد کے بالکل الٹ ہے۔ شادی شدہ سرکاری ملازمین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پوری ملازمت کے دوران الگ الگ رہیں، کیونکہ تبادلہ ملازمت کا ایک لازمی جزو، ایک معمول اور متوقع پہلو سمجھا جاتا ہے، اور سول سرونٹس سے ان تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توقع کی جاتی ہے۔‘

یہاں دراصل سپریم کورٹ نے یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ محکمانہ معمول (روٹین) کو محض ایک معمول ہی کے طور پر دیکھنا چاہیے، ایک شکنجے کے طور پر نہیں، جس کے ذریعے وہ اپنے ملازمین کو جکڑ دے۔

سپریم کورٹ کے مطابق ویڈلاک پالیسی کا نفاذ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست موثر انداز میں کام کرتی رہے اور ساتھ ہی تمام سرکاری ملازمین اپنے خاندان اور ازدواجی زندگی کے دائرے میں باوقار طریقے سے خدمات انجام دے سکیں۔

عوام کی بہتری کے لیے بنائے گئے قوانین اور پالیسیاں نافذ کی جانی چاہئیں اور ایسے اسباب کی بنا پر نظر انداز نہیں کی جانی چاہئیں جو خود قانون یا پالیسی کے مقصد کی نفی کرتے ہوں۔

چنانچہ ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے فیڈرل سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق عوامی مفاد میں یہ فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہے، جس سے نہ صرف شہریوں کو ان کے جائز حقوق ملیں گے بلکہ حکومتی ادارے بھی صرف لکھے ہوئے قانون کے بحائے آئین و قانون کی روح کو سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp