فیصل کمال پاشا(اسلام ا ٓباد)، غالب نہاد( کوئٹہ)
وفاقی آئینی عدالت نے کوئٹہ کے لوکل گورنمنٹ انتخابات پر حکمِ امتناع جاری کر دیا ہے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر بھی شامل تھے۔
درخواست گزار عبدالقادر کی جانب سے معروف قانون دان کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئٹہ میں بلدیاتی حلقہ بندیاں 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئیں، حالانکہ 2023 کی مردم شماری باقاعدہ طور پر نوٹیفائی ہو چکی ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق بلدیاتی انتخابات نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں پر ہونے چاہئیں۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے انتخابات پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
بلدیاتی انتخابات ملتوی، سیاسی ردِعمل
عدالتی حکم کے بعد بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو گئے، جس پر وکلا اور سیاسی رہنماؤں نے مختلف ردعمل دیا۔
ایڈووکیٹ راحب بلیدی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے ہیں جبکہ اس کیس کی اگلی سماعت 21 جنوری کو ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات عوام کا آئینی حق ہیں اور ان کا ملتوی ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنما نے حکومت کی جانب سے انتخابات ملتوی کروانے کی درخواست کو ناقابلِ فہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جمہوری عمل سے فرار اختیار کر رہی ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنما اسلم بلوچ نے کہا کہ ہم ہر صورت بلدیاتی انتخابات کروا کر رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سردی اور امن و امان کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کرنا عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیے کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول پر حکم امتناعی جاری
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ نے کہا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے جان بوجھ کر فرار اختیار کر رہی ہے، کیونکہ اگر انتخابات ہوتے تو حکمرانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما یونس بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ بلدیاتی انتخابات میں تمام وارڈز میں ووٹرز کا اندراج درست نہیں تھا اور الیکشن کمیشن کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی۔ ان کے مطابق اگر انتخابات ہو جاتے تو متعدد پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں، تاہم اب الیکشن کمیشن کو اپنی خامیاں درست کرنے کا موقع مل گیا ہے۔














