فقیہ، عقل اور فلسفی

جمعہ 26 دسمبر 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ایک بہت ہی سنجیدہ اور متین دوست نے لکھا ہے کہ ’مولانا شبلی نعمانی نے کلام اور علم الکلام میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل کا فتویٰ پیش کیا ہے کہ جو کوئی مذہب کو عقلی طور پر ثابت کرے، اسے کوڑے پڑنے چاہیئں۔ امام غزالی نے اسی کام پر ابن سینا اور فارابی کو کافر قرار دیا۔ (بہ حوالہ کاشف جاوید/ویڈیو)۔ اس مناظرے میں مفتی صاحب نے وہی کام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے عقلی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور اس کے لیے فلسفے کی اصطلاحیں مستعار لیں۔ اس کے رد میں جاوید اختر نے انہیں اس ویڈیو میں درست مذہبی تصور سمجھایا۔ اور ثابت کیا کہ انفنٹ ریگریس کی دلیل خود اللہ تعالیٰ کی ہمیشگی کے تصور میں موجود ہے‘۔

 ہم نے اپنے دوست کی عبارت پوری نقل کی ہے تاکہ اس شکوے کا امکان بھی باقی نہ رہے کہ ’سیاق و سباق‘ کو متاثر کیا گیا ہے۔ لیکن بات ہم اس کے صرف دو پہلوؤں پر کرنا چاہتے ہیں۔ ایک امام ابوحنیفہ، امام حمد ابن حنبل اور امام غزالی سے منسوب معاملے پر اور دوسرا مذہب، عقل اور فلسفے والے پہلو پر۔

پہلی عرض تو یہ ہے کہ غیر مذہبی ذہن مذہبی متون کا شعور نہیں رکھتا، سو جب فقہی مسئلے پر شبلی جیسے مؤرخ کی بات نقل کی جاتی ہے تو ایسا ذہن اس سے غلط نتائج اخذ کرلیتا ہے۔ ہمارے دوست کی عبارت کا یہ ٹکڑا ’اسے کوڑے پڑنے چاہییں‘ تجویزی نوعیت کا ہے جبکہ فتوی حکم بیان کرتا ہے تجاویز نہیں۔ مذکورہ جملے کی ساخت سے واضح ہے کہ یہ فقہی موقف نہیں بلکہ اس طرح کا ’مجلسی تبصرہ‘ ہے جو ہمارے ہاں بعض لوگ یوں کردیتے ہیں ’کرپٹ حکمرانوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہئے‘ سو اس طرح کی مبہم عبارت پبلک فورم پر  فکری بددیانتی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔  لہذا، اس ابہام کو ہم دور کردیتے ہیں تاکہ امام ابوحنیفہ یا امام احمد ابن حنبل کے تبصرے ان کا فقہی موقف بنا کر نہ پھیلائے جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزای اور غلامی

یہ بات بالکل درست ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ دونوں ہی متکلمین کے شدید خلاف تھے۔ مگر بس ایک خاص تناظر میں۔ اس تناظر کو سمجھنے کے لئے یہ پس منظر سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ گریک سولائزیشن کے زوال کے صدیوں بعد مبعوث ہوئے تھے۔ اللہ نے ان کے ذریعے اپنا دین بھیجا جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے۔ جب یہ دین مکمل ہوا تو آیت  نازل ہوگئی کہ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا۔ جس کا مطلب تھا کہ اس آیت کے بعد نہ تو دین میں کچھ داخل ہوسکتا تھا اور نہ ہی خارج۔ اس کے لگ بھگ ایک صدی بعد مسلم فتوحات کے دور میں گریک لائبریری مسلمانوں کے ہاتھ لگی اور انہوں نے اس کے ذخیرہ کتب کے تراجم کئے تو پہلی بار فلسفہ مسلم سماج میں داخل ہوا۔ جو جلد ہی علم کلام کا خمیر ثابت ہوا۔

اور یہیں سے فرقوں کی بنیاد پڑی۔ وہ فرقے جنہوں نے ایک دوسرے کے تصورات کے انکار پر بھی کفر کے فتوے لگائے۔ سو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مسلم ہسٹری کے پہلے تکفیری فلسفی اور متکلم تھے، نہ کہ فقہاء۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد ابن حنبل اسی چیز سے بیزار تھے۔ اور انہوں نے حجۃ الوداع والے روز مکمل ہوجانے والے دین میں فلسفے اور کلام کی نقب زنی کے خلاف ہی سخت مؤقف اختیار کیا۔ لیکن ہماری معلومات کے مطابق اس پر کوئی فقہی فتوی ہرگز نہیں لگایا۔ ایسا کوئی بھی فتوی فقہ حنفی یا فقہ حنبلی کی کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں۔  یہ ان دونوں ائمہ پر تہمت ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جیو پالیٹکس اور مذہبی عینک

اب آجائیے اس معاملے کے دوسرے پہلو کی جانب۔ ایک ہے دین، اور ایک ہے شریعت اور فقہ۔ شریعت قانون اور فقہ اس کی تشریح و تدوین ہے۔ پھر اس کے 2 پہلو ہیں۔ ایک ذاتی اور دوسرا اجتماعی۔ ذاتی میں عقیدہ، عبادات۔ اور،  اخلاق آجاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ علماء سے مذکورہ امور سے متعلق جو مسائل پوچھتے ہیں وہ دراصل قانونی سوالات ہی ہوتے ہیں، یعنی اس معاملے میں شرعی قانون کیا ہے ؟۔ جبکہ اجتماعی زندگی میں ’معاملات‘ آجاتے ہیں۔ جس میں افراد کے باہمی معاملے، معاہدے، اور ریاستی امور سب شامل ہوتے ہیں۔ اور ان سے جڑے امور کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں ہوتی ہیں۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ وہ فقیہ ہیں جن کے مکتب فکر میں قیاس فقہی کی صورت عقل کو باقاعدہ منظم عمل دخل حاصل ہے۔ فقہ حنفی کی کوئی بھی کلاسیکل کتاب اٹھا لیجئے، آپ کو عقلی استدلال پورے جوبن پر ملے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ہاں ’اصولی بحث‘ بھی منظم اسکیم کے تحت موجود نظر آتی ہے۔ اصولی بحث سے ہمارا اشارہ خاص طور پر عقلی اصول کی جانب ہے۔ خود ’اصول فقہ‘ کی اصطلاح ہی دیکھ لیجیے۔ جو بجائے خود سب بتا رہی ہے۔ سو یہ تاثر دینا کہ کہ مذہبی علمیات میں گویا عقل کا عمل دخل ہی ممنوع ہے، ایک گمراہ کن الزام کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

مذہبی معاملات میں عقل کی حد بندی کہاں ہوتی ہے؟ اس کے لیے چلتے ہیں ہمارے دوست کی عبارت کے غزالی والے حصے کی جانب۔ جہاں ہم  واضح کریں گے کہ جو امام ابوحنیفہ، امام احمد ابن حنبل اور امام غزالی کا مؤقف تھا۔ 19،20  کے فرق سے عین وہی موقف نہ صرف آج کے جدید فلسفے کا ہے بلکہ شہرہ آفاق فلسفی رینے دیکارت کا ڈولزم بھی وہی ہے۔

غزالی کے معاملے میں سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ ان کی معرکۃ الآراء کتاب تہافۃ الفلاسفہ فقہ کی نہیں بلکہ فلسفے کی کتاب ہے۔ غزالی تاریخ کے پہلے فلسفی ہیں جو اس کتاب میں سب سے پہلے یونانی فلسفے کے 20 اصول متعین کرتے ہیں۔  یہ یونانی فلسفے پر غزالی کا تن تنہا احسان ہے۔ پھر وہ ان اصولوں کو مذہبی بنیاد پر بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ اور ثابت کرتے ہیں کہ ان 20 میں سے پہلے 3 اصول کفر بواح ہیں۔ اور یہ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ امام الفقہ بھی ہیں۔

مزید پڑھیے: منرو ڈاکٹرائن اور اس کی بگڑتی شکلیں

 سو اگر فزیشن سرجن بھی ہے تو اس کے چیرے پر بدکنا نہیں چاہئے۔  فی الحقیقت یہ وہ مقام ہے جہاں وہ شخصیت پرست مسلم سماج سے کہتے ہیں کہ مذکورہ اصول اگر ابن سینا اور فارابی نے بھی شعور ہونے کے باوجود اختیار کر رکھے ہوں تو کفر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کفر کسے کہتے ہیں ؟ جو خیال یا عمل اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو وہ کفر ہے۔ سو امام الفقہ سے یہ گلہ کرنا کہ اس نے کفر کا فتوی لگایا، ایسا ہی ہے جیسے سول انجینئر سے یہ شکایت کہ اس نے عمارت کو مخدوش اور ناقابل رہائش قرار دیا۔

اب آئیے پہلے رینے دیکارت کے ڈولزم کی جانب چلتے ہیں، پھر لوٹ کر غزالی کی جانب آتے ہیں اور آخر میں جمپ کرکے جدید فلسفے تک جاتے ہیں۔ تاکہ واضح ہوسکے کہ مذہب، عقیدے، یا ایمانیات کی بحث میں عقل کی حدود پر یہ لگ بھگ ہم زبان ہیں۔ لہذا، اس ضمن میں غزالی پر بھپتی کسنا اپنی جہالت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

رینے دیکارت کے سامنے ایک سوال کھڑا ہوا تھا، اور وہ یہ کہ میں کس بات پر پوری طرح یقین کرسکتا ہوں؟ اسی سوال پر غور سے ڈولزم نے جنم لیا۔ دیکارت نے دیکھا تھا کہ آنکھیں بھی دھوکہ دے جاتی ہیں، خواب بھی لگتے حقیقت ہیں لیکن آنکھ کھلتے ہی پھررر ہوجاتے ہیں، اور لوگ بھی غلط پٹیاں پڑاتے ہیں۔ لہذا ہر چیز مشکوک ہے۔ سو شک خاتمہ ہی ’یقین‘ ہے۔ اور اس تک پہنچنا ہے۔ یوں پہلے یقین سے اس کا سامنا یوں ہوا کہ اس نے کہا، میں سوچتا  ہوں لہذا یہ بات تو 100 فیصد یقینی ہے کہ میں ہوں۔ اور یہاں سے آگے گویا اس نے عین وہی کیا جس کی قرآن نے دعوت دی تھی

 ’وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ‘

(سورہ ذاریات/ آیت 21)

ترجمہ: اور خود تمہارے اندر (بھی نشانیاں ہیں)، کیا تم دیکھتے نہیں؟

سو دیکارت نے اپنی ذات کی جانب متوجہ ہوکر غور کیا تو اسے 2 طرح کی چیزیں نظر آئیں۔ پہلا جسم جو ان معروف اعضاء پر مشتمل تھا۔ ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، ناک، ذہنِ جسمی۔ ان کے متعلق اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ بگاڑے بھی جاسکتے ہیں، ٹھیک بھی کیے جاسکتے ہیں، ناپے بھی جاسکتے ہیں۔ دوسری قسم کی چیزیں اسے اپنے ہی وجود میں ذہن کی فکری حالت، خیال، خوشی، غم اور یقین کی صورت نظر آئیں۔ ان سے متعلق اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ نظر نہیں آتیں، ناپی اور تولی نہیں جاسکتیں۔ مگر اس کے باوجود ان کا ہونا ہر طرح کے شک و شبہے سے خالی ہے۔ یوں دیکارت کی ڈولزم والی تھیوری وجود میں آنی شروع ہوگئی کہ جسم الگ اور سوچ الگ چیز ہے۔

اور ساتھ ہی دیکارت اس نتیجے پر بھی پہنچ گیا کہ جسمانی امور میں تو عقل کافی ثابت ہو رہی ہے کہ دیکھ بھی رہی ہے، اور ناپ تول بھی رہی ہے لیکن فکر، خیال، خوشی اور غم کے معاملے میں یہ بے بس ہے۔ انہیں یہ نہ تو دیکھ پا رہی ہے اور نہ ہی ناپ تول سے گزارنے کی سکت رکھتی ہے۔ سو اگلے نتیجے میں اس نے کہا، خدا، روح اور آخرت کو آنکھ دیکھ پا رہی ہے، اور نہ ہی یہ ریاضی کی طرح پوری طرح ثابت ہیں، لیکن موجود ہیں۔ لہذا عقل محض چراغ ہے سورج نہیں۔ یہ ہے دیکارت کا پورا ڈولزم۔

اب یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیے کہ دیکارت 17ویں صدی کے فلسفی ہیں۔ اور غزالی ان سے 500 سال قبل 11 ویں صدی کے۔ آیئے غزالی کو سنتے ہیں کہ عقل سے متعلق وہ دیکارت سے 500 سال قبل کیا کہہ گئے تھے۔

غزالی کے سامنے بھی ایک سوال کھڑا ہوا تھا۔ اور وہ یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو پہچاننے کا سب سے محفوظ راستہ کونسا ہے؟ سو غزالی نے سوچا کہ پہلے عقل کو استعمال کر لیتے ہیں۔ غزالی نے دیکھا کہ عقل بہت کچھ سجھا اور سمجھا دیتی ہے مگر سب کچھ نہیں۔ مثلا عقل یہ تو بتا سکتی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ مگر یہ ثابت نہیں کرسکتی کہ آگ ہمیشہ ہی جلائے گی۔ دینے کو نمرود کی آگ والی مثال بھی ہے مگر آپ آج کے دور کے اس لباس کی مثال دیکھ لیجیے جو ترق یافتہ ممالک کے فائر بریگیڈ والے استعمال کرتے ہیں، اور آگ اسے نہیں جلا پاتی۔ سو غزالی نے کہا، عقل اکیلی کافی نہیں۔ کیونکہ ایک مقام پر جا کر یہ بے بس ہوجاتی ہے۔

چنانچہ اگلے مرحلے میں غزالی نے کہا، عقل آنکھ کی طرح ہے، اور وحی روشنی جیسی۔ اگر آنکھ ہو مگر اندھیرا ہو، یعنی روشنی نہ ہو تو کیا نظر آئے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ اگر آنکھ بند ہو اور روشنی ہو تو کیا نظر آئے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ آنکھ اور روشنی/ عقل اور وحی دونوں ہوں گے تو تب ہی سچ نظر آئے گا۔ چنانچہ یہاں پہنچ کر امام غزالی علیہ الرحمہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں کہ ایمان صرف دلیل سے نہیں، دل کی روشنی سے نصیب ہوتا ہے۔ جیسے آپ کسی کو شہد کی مٹھاس اور ذائقہ دلیل سے نہیں سمجھا سکتے بلکہ چکھانا پڑتا ہے بالکل اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی صرف عقلی دلائل سے نہیں، بلکہ دل کی صفائی سے پہچان میں آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر

پھر وہ اپنی پوری تھیوری یوں تشکیل دیتے ہیں۔ عقل سچ کی طرف اشارہ کرتی ہے، وحی راستہ صاف دکھاتی ہے، اور صالح دل سچ کو یقین میں بدل دیتا ہے۔ یعنی راستہ بتانے والا نقشہ عقل ہے،  سمجھانے والا استاد وحی ہے، اور اس پر چلنے کے لئے آمادہ کرنے والا دل ہے۔للہ  اپنے اسینے پر ہاتھ رکھ کر بتایئے، ہے کوئی فرق دیکارت کے ڈولزم اور غزالی کی تھوری کے نتائج میں ؟ دونوں نے عقل کا ناکافی ہونا ہی تو ثابت کیا ہے۔

اب آجائیے جدید فلسفے کی جانب۔  جدید فلسفے کی سب سے بڑی پیشرفت ہی یہ ہے کہ وہ عقل کو مطلق حاکم ماننے سے انکار کرتا ہے۔ مثلا ایمنویل کانٹ کہتا ہے، عقل تجربے (experience) اور مظاہر (phenomena) کو سمجھ سکتی ہے۔ مگر خدا، روح اور آخرت جیسے امور noumenal  یعنی تجربے سے ماوریٰ ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ عقل نہ تو قطعی طور پر خدا کا انکار ثابت کرسکتی ہے، اور نہ ہی وجود۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جدید فلسفہ یہ نکتہ پیش کرتا ہے کہ ایمان خلاف عقل نہیں بلکہ عقل سے ماوریٰ یعنی اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ چنانچہ سورن کیئرکیگارڈ اس کی صراحت کرتے ہوئے فیصلہ کن جملہ کہتا ہے

 

’ایمان منطقی ثبوت کا نتیجہ نہیں، بلکہ وجودی کمٹمنٹ ہے لہذا یہ خلافِ عقل چھلانگ نہیں، بلکہ عقل کی انتہا پر جا کر کیا گیا انتخاب ہے‘۔

جدید فلسفہ یہیں نہیں رکتا بلکہ ایک قدم مزید آگے بڑھ کر کہتا ہے، ہر سچائی ثبوت کی محتاج نہیں۔ مثلا  دوسرے انسان شعور رکھتے ہیں، ماضی واقعی وجود رکھتا تھا، خارجی دنیا حقیقت ہے۔ ان سب کے قطعی ثبوت موجود نہیں مگر انہیں جہل نہیں کہا جاتا۔چنانچہ ہمارے اس عہد کے ہی امریکی فلاسفر ایلون پلانٹنگا کہتے ہیں

‘Belief in God can be properly basic’

یعنی خدا پر ایمان، دلیل کے بغیر بھی، عقلی طور پر درست ہو سکتا ہے۔ امام رازی کا مشہور زمانہ فقرہ “میں خدا کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں” یاد آیا ؟اس گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم چاہتے ہیں آپ جدید فلسفے کے اس ’فیصلے‘ کو ایک بار پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے جہاں سے جدید فلسفے کا موقف شروع ہوا تھا۔ یعنی عقل حاکم مطلق نہیں۔ جانتے ہیں غزالی نے یونانی فلسفے کے جو 20 اصول وضع کئے تھے ان میں پہلا اصول کیا تھا ؟ یہ کہ یونانی فلسفہ کہتا ہے، عقل وحی پر حکم ہے۔ اور اسے غزالی نے کفر بواح کہا تھا۔ خود جدید فلسفے نے بھی اس یونانی اصول کی نفی کردی کہ نہیں؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے ایمان سے بتایئے امام ابو حنیفہ اور امام احمد ابن حنبل کو علم کلام سے جو چڑ تھی، اسے دیکارت کے ڈولزم اور جدید فلسفے دونوں نے جائز ثابت کردیا کہ نہیں؟

سو جدید ذہن کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ مذہب اور فلسفے کے تصادم پر اوٹ پٹانگ قسم کی سطحی ٹامک توئیاں مارنے سے گریز فرمایا کیجیے، آپ جانتے ہی نہیں کہ جدید فلسفہ اور قرون اولی کے فقہاء اب عقل کی بے بسی کے معاملے پر یک زبان ہوچکے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

قومی ایئرلائن کی پرائیوٹائزیشن، فوجی فرٹیلائزر کی شمولیت کامیاب نجکاری کے لیے اہم

ریاض سیزن میں ‘فلائنگ اوور سعودی’ کا آغاز، حسین مناظر کی فضائی سیر کی سہولت

اسرائیل خودساختہ صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

بھارت: بیوفائی کے شبے میں شوہر نے بیوی کو آگ میں جھونک دیا، بیٹی بچ گئی

تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے پر چین کی جانب سے امریکی دفاعی کمپنیوں، عہدیداروں پر پابندی

ویڈیو

کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟

یو اے ای کے صدر کا دورہ پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر، حکومت کا عمران خان کے ساتھ ممکنہ معاہدہ

پاکستان اور امارات کا مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق، اماراتی صدر محمد بن زاید النہیان دورہ پاکستان کے بعد واپس روانہ

کالم / تجزیہ

منیر نیازی سے آخری ملاقات

پی آئی اے کی نجکاری ، چند اہم پہلو

پاکستان ایسے ہی ڈارلنگ نہیں بنا، محنتیں ہیں