بھارت کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنے قیام کے 100 سال مکمل کر لیے ہیں، جس موقع پر تنظیم کے سیاسی، سماجی اور ریاستی اداروں میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بھارت میں گہری ہوتی سماجی تقسیم اور شدت پسندی پر ایک بار پھر بحث تیز ہو گئی ہے۔
آر ایس ایس، جس کے موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی رکن رہ چکے ہیں، کو آج بھارت کی سب سے طاقتور دائیں بازو کی تنظیم تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جھوٹی معلومات پھیلانے پر ارناب گوسوامی اور بی جے پی رہنما کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج
نیویار ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس نے گزشتہ ایک صدی کے دوران خود کو ایک خفیہ تنظیم سے نکال کر ایک منظم اور ہمہ گیر نیٹ ورک میں تبدیل کر لیا ہے، جو سیاست، عدلیہ، پولیس، میڈیا، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں تک اثر رکھتا ہے۔ تنظیم کے ہزاروں ذیلی ادارے ملک بھر میں سرگرم ہیں، جن کے ذریعے ہندو قوم پرستی کے نظریے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کو غیر معمولی سیاسی تقویت ملی۔ بی جے پی کی انتخابی کامیابیوں کو آر ایس ایس کی تنظیمی طاقت اور نچلی سطح پر موجود نیٹ ورک کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق آر ایس ایس کا ایجنڈا بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے بجائے ہندو بالادست ریاست میں تبدیل کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بھارت میں کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کو انتہا پسندوں کے حملوں کا سامنا
آر ایس ایس پر اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے اور تشدد کو ہوا دینے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ متعدد واقعات میں ہندو انتہاپسند گروہوں کی جانب سے مساجد، گرجا گھروں اور اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کی خبریں سامنے آئی ہیں، جنہیں ناقدین آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کی کارروائیاں قرار دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق آر ایس ایس کی بڑھتی طاقت نے بھارت کو مذہبی بنیادوں پر مزید تقسیم کر دیا ہے، اور آنے والے برسوں میں یہ تنظیم بھارتی سیاست اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کرتی رہے گی۔














